مختار احمد قریشی
ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو دنیا کے ہر رشتے سے مختلف، انمول اور بے مثال ہوتا ہے۔ ماں کی محبت وہ واحد جذبہ ہے جو نہ کسی مفاد سے جڑا ہوتا ہے، نہ کسی غرض سے، بلکہ خالص، بے لوث اور فطری ہوتا ہے۔ بچپن کی پہلی مسکراہٹ سے لے کر جوانی کی راہوں میں درپیش ہر چیلنج تک، ماں کا وجود ایک سایہ دار درخت کی مانند ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ جب ہم زندگی کے کسی موڑ پر ٹھوکر کھاتے ہیں، تو ماں کی ممتا ہمیں پھر سے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس کی دعاؤں میں وہ طاقت ہوتی ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتی ہے۔ وہ راتوں کو جاگ کر اپنے بچوں کے بخار پر ہاتھ رکھتی ہے، دن بھر کام کرکے تھکنے کے باوجود ان کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اپنی ساری تھکن بھول جاتی ہے۔
ماں نہ صرف محبت کا استعارہ ہے بلکہ وہ ایک مکمل تربیت گاہ بھی ہے۔ بچہ اپنی پہلی تربیت ماں کی گود میں حاصل کرتا ہے، وہیں سے بولنے، چلنے، برتاؤ کرنے اور اخلاقیات سیکھتا ہے۔ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں ادب، احترام، صبر، شکر اور ہمدردی جیسے اوصاف پروان چڑھتے ہیں۔ ماں کی قربانیوں کی فہرست بہت طویل ہوتی ہے،وہ اپنے خواب، اپنی خواہشات اور کبھی کبھی اپنی صحت کو بھی بچوں کی خوشی کے لیے قربان کر دیتی ہے۔ دنیا کی ہر بڑی شخصیت کے پیچھے کسی نہ کسی ماں کا کردار ضرور چھپا ہوتا ہے، جو خاموشی سے اپنے بچے کو اس مقام تک پہنچانے میں اپنا سب کچھ لٹا چکی ہوتی ہے۔ یوں ماں صرف ایک رشتہ نہیں، بلکہ ایک مکمل ادارہ ہے، جو نسلوں کی تعمیر اور معاشرتی استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
ماں کی قربانیوں کو اگر کوئی لفظوں میں بیان کرنا چاہے تو شاید الفاظ کم پڑ جائیں۔ ماں وہ ہستی ہے جو خود بھوکی رہ کر بچوں کو کھلاتی ہے، سردیوں میں خود ٹھٹھرتی ہے مگر بچوں کو گرم کپڑوں میں لپیٹتی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد صرف اپنے بچوں کی بہتری اور کامیابی بن جاتا ہے۔ جب کوئی ماں اپنے بچے کو کامیاب ہوتا دیکھتی ہے، تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اس کی ساری قربانیوں کا بہترین صلہ بن جاتے ہیں۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں، جب وقت کی کمی اور مصروفیت ہر رشتے کو کمزور کر رہی ہے، ماں کا رشتہ آج بھی ویسا ہی مضبوط، بے غرض اور وفا دار ہے جیسا صدیوں پہلے تھا۔ اس کا کردار نہ وقت سے بدلتا ہے، نہ حالات سے، بلکہ ہر دور میں وہی محبت، وہی خلوص، وہی تربیت دینے والی ماں باقی رہتی ہے۔
ماں کا کردار صرف گھر کے اندر ہی محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ایک نیک، تربیت یافتہ اور باشعور ماں آنے والی نسلوں کو نہ صرف علم دیتی ہے بلکہ انہیں ایک بااخلاق، باشعور اور ذمے دار شہری بناتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو پورا خاندان سنورتا ہے، اور اگر ماں سیرت و کردار کی دولت سے مالا مال ہو تو ایک مہذب معاشرہ جنم لیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی ماں کو خصوصی مقام دیتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔” یہ ارشاد نہ صرف ماں کے رتبے کو بیان کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ایک اچھی ماں بننے کے لیے کس قدر ضبط، صبر، فہم، علم اور قربانی درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے کردار کو جتنا سراہا جائے، کم ہے، کیونکہ وہ زندگی کے ہر رنگ میں ہمارے لیے روشنی کا مینار بن کر کھڑی رہتی ہے۔
ماں کی گود صرف سکون کا گوشہ نہیں بلکہ زندگی کے ابتدائی سبق کی پہلی کتاب ہے۔ وہ بچے کو صرف بولنا یا چلنا نہیں سکھاتی، بلکہ صبر، برداشت، محبت، ایثار اور انسانیت جیسے اعلیٰ اخلاقی اقدار بھی اپنے عمل سے منتقل کرتی ہے۔ جب بچہ کسی غلطی پر نادم ہوتا ہے، تو ماں اسے نہ صرف معاف کرتی ہے بلکہ شفقت سے اس کی اصلاح بھی کرتی ہے۔ ماں کا اندازِ تربیت اکثر خاموش ہوتا ہے، مگر اس کی گونج بچے کی شخصیت میں عمر بھر سنائی دیتی ہے۔ اس کی باتوں میں وہ دانائی چھپی ہوتی ہے جو کسی مدرسے یا یونیورسٹی میں نہیں سکھائی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کامیاب لوگوں کی زبانی ہم سنتے ہیں کہ وہ جس مقام پر پہنچے، اس میں ان کی ماں کی دعاؤں اور تربیت کا بڑا دخل تھا۔
آج جب دنیا مادی ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے، تو ایسے میں ماں کے کردار کو پہچاننا اور اس کی قدر کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ جدید معاشرے میں بعض اوقات ماں کے وجود کو نظر انداز کیا جاتا ہے، یا صرف ایک گھریلو کردار تک محدود سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک ماں جب اپنے بچے کی اچھی تعلیم، تربیت اور بہتر مستقبل کے لیے خود کو وقف کرتی ہے، تو وہ درحقیقت ایک مکمل قوم کی بنیاد رکھ رہی ہوتی ہے۔ ایک باکردار ماں کی گود سے ہی باکردار نسلیں جنم لیتی ہیں۔ اس لیے اگر ہم ایک بہتر معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہمیں ماں کے کردار کو صرف محبت اور قربانی کے استعارے کے طور پر نہیں، بلکہ قوم کی معمار کے طور پر بھی تسلیم کرنا ہوگا۔
(رابطہ۔8082403001)
[email protected]