بلال فرقانی
سرینگر //عید الاضحی کے بعد پر اگرچہ سرینگر کے مشہور مغل باغات اور دیگر تفریحی مقامات پر مقامی سیاحوں کی آمد و رفت سے کچھ گہما گہمی لوٹ آئی ہے تاہم 22 مئی کو پہلگام میں پیش آئے افسوسناک واقعہ کے بعد وادی میں سیاحتی سرگرمیاں جیسے مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ مغل باغات اور شہرکے تفریحی مراکز پر سناٹا چھا یا ہے، جس کے باعث سیاحت سے جڑے ہزاروں افراد بالخصوص دستکاری فروش، دکاندار، کاریگر اور ٹرانسپورٹر بے روزگار ہو گئے ہیں۔نشاط، شالیمار، چشمہ شاہی، ہارون، بوٹینیکل گارڈن، پری محل، نہرو پارک اور اقبال پارک جیسے معروف باغات میںجہاں روزانہ ہزاروں سیاح سیر کے لیے آیا کرتے تھے، اب ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ محکمہ گارڈنز اینڈ فلوریکلچر کے مطابق پہلگام واقع سے قبل ان مقامات پر روزانہ کم از کم 50 ہزار مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی آمد ہوتی تھی، جو اب اچانک بند ہو گئی ہے۔ اس صورتحال نے سیاحتی معیشت برباد کی ہے۔ مغل باغات کے انچارج صداقت علی نے بتایا’’نشاط باغ میں روزانہ7 سے10 سیاح آیا کرتے تھے۔ شالیمار، ہارون اور چشمہ شاہی کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں تھی لیکن پہلگام واقع کے بعد سیاحوں کی آمد رک گئی۔ عید کے بعد اگرچہ مقامی لوگوں کی آمد کا سلسلہ جزوی طور بحال ہوا، تاہم اس میں بیرونی سیاح بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں‘‘۔یہ صورتحال صرف باغات تک محدود نہیں بلکہ لالچوک، پولو ویو اور بلیوارڈ روڈ پر بھی برا اثر ڈال چکی ہے، جہاں روزانہ سینکڑوں افراد شال، کشمیری قالین، سووینئرز، کپڑے اور دیگر اشیاء فروخت کرتے تھے۔ لالچوک کے مکہ مارکیٹ میں ایک دکاندارفیروز احمدنے بتایا’’ ہم دن بھر ان باغات اور بازاروں سے آنے والے سیاحوں کا انتظار کرتے تھے۔ وہی ہمارے گاہک ہوتے تھے۔ اب دس دن سے سیاح نظر ہی نہیں آ رہے ہیں، تو ہم کیا بیچیں اور کس کوبیچیں؟ کئی لوگ تو کرایہ دیکر دکانیں چلاتے ہیں، اب وہ بھی مقروض ہو گئے ہیں‘‘۔لالچوک، نشاط اور شالیمار سے جڑے کاروباریوں کا کہنا ہے کہ کم از کم1000 دکاندار اور چھاپڑی فروش ان مقامات پر سیاحوں کی آمد سے روزگار کماتے تھے اور یہ سلسلہ ایک جھٹکے میں رک گیا ہے۔ ان دکانداروں کا کہنا ہے کہ سیاحت وادی میں کئی لاکھ افراد کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے، لیکن سیکورٹی خدشات اور میڈیا میں وائرل افواہوں نے ایک بار پھر وادی کی امن فضا کو زک پہنچائی ہے۔نشاط باغ کے باہر موجود ایک مقامیدکاندار غلام حسن نے بتایا ’’میں پانچ سے چھ ہزار کا کاروبار روزانہ کر لیتا تھا، سیاح خوشی خوشی شال اور دیگر چیزیںخریدتے تھے۔ اب تو صرف مقامی لوگ ہی بچ گئے ہیں اور وہ بھی اتنا خرچ نہیں کرتے۔ ہمارا روزمرہ خرچہ بھی پورا نہیں ہو رتا ہے‘‘۔شالیمار باغ کے باہر ایک دکاندار ایاز احمد، جن کہتے ہیں’’ہم نے گرمیوں کے سیزن کیلئے بڑی امیدوں سے نیا مال منگوایا تھا، لیکن اب وہ سارا سٹاک گوداموں میں پڑا ہے۔ ٹرانسپورٹ والے، کاریگر، درزی، سبھی کو ہم نے کام پر رکھا تھا، اب ہم خود بندشوں میں آگئے ہیں‘‘۔ادھر محکمہ سیاحت کے افسران کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے سیاحتی تحفظ اور اعتماد کی بحالی کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ تاہم صرف بیانات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، جب تک مؤثر تشہیر، تحفظ اور اعتماد سازی کے اقدامات عملی طور پر نہیں کیے جاتے۔بوٹینیکل گارڈن کے پاس ایک نوجوان دستکار شاکر احمد نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’سیاحت زندہ ہے تو کشمیر خوشحال رہے گا۔ ابھی ہم سب بے روزگار ہیں، مگر امید ہے کہ حالات بدلیں گے، ورنہ اگلا سیزن بھی برباد جائے گا‘‘۔