ڈاکٹر ریاض احمد
جب 19ویں صدی میں فوٹوگرافی ایک جدید سائنسی ایجاد کے طور پر دنیا کے سامنے آئی، تو اسے حیرت، شک اور مزاحمت کے امتزاج کے ساتھ قبول کیا گیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں بالخصوص مسلم معاشروں میں اس نئی ٹیکنالوجی نے صرف فن و ہنر یا سائنسی ترقی کا نہیں بلکہ مذہبی شناخت، اختیار اور جدیدیت کا ایک وسیع اور پیچیدہ مکالمہ چھیڑ دیا۔جب کیمرہ پہلی بار متعارف ہوا تو سب سے زیادہ مخالفت مسلمانوں کی جانب سے کی گئی۔ اسے حرام اور ناقابلِ استعمال قرار دیا گیا۔ کئی برس صرف اس بحث میں گزر گئے کہ آیا یہ حلال ہے یا حرام۔ دوسری طرف، غیر مسلموں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا اور آمدنی کے ایک مؤثر ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ آج وہی لوگ اس ٹیکنالوجی میں غالب ہیں اور اس کے ذریعے دنیا میں جو چاہیں کر رہے ہیں۔یہ کیمرہ آج کے دور میں ایک زبردست ہتھیار بن چکا ہے جو معاشرے میں پروپیگنڈا، نفرت اور غلط فہمیاں پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ مسلمان اس معاملے میں دفاعی پوزیشن میں ہیں کیونکہ ان کا مؤقف نہ سنا جا رہا ہے اور نہ ہی قبول کیا جا رہا ہے۔ ان کی تصویر ان کی کہانی اور ان کا بیانیہ دوسروں کے قابو میں ہے اور وہ خود اپنی ترجمانی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
کیمرے کی آمد: 1839میں فرانس میں پہلی بار فوٹوگرافی کے عمل ،ڈاگیروٹائپ (Daguerreotype)کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ جلد ہی کیمرہ عثمانی سلطنت، ایران، مصر اور برطانوی ہندوستان میں پہنچا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس نئی ٹیکنالوجی کا سامنا ایک ایسے وقت میں کیا جب وہ نوآبادیاتی تسلط، ثقافتی تبدیلی اور سائنسی ترقی کے دباؤ میں تھے۔ مسلمانوں کا ردِعمل یکساں نہیں تھا،کچھ نے اسے اپنایا، کچھ نے اس سے محتاط رویہ اختیار کیا، اور کچھ نے اسے مکمل طور پر رد کر دیا۔ اور مذہبی سوال یہ کھڑا ہوا ،کیا فوٹوگرافی جائز ہے؟اسلامی روایت میں تصویریں بنانے کی ممانعت یا احتیاط (انیکونزم) ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ کچھ احادیث میں انسانوں اور جانداروں کی تصاویر بنانے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق کی نقل سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ کچھ علماء نے فوٹوگرافی کو بھی مجسمہ سازی یا مصوری کے برابر تصور کرتے ہوئے ناجائز قرار دیا۔لیکن فوٹوگرافی ایک مشینی عمل تھا جو محض حقیقت کی عکاسی کرتا تھا، اس لیے کچھ علماء نے اسے ایک مختلف نوعیت کی شے سمجھا، اس باریک فرق نے فقہی اختلافات کو جنم دیا۔
19ویں صدی کے آخر تک، قدامت پسند علماء کی ایک بڑی تعداد نے فوٹوگرافی کو فضول، دنیا پرستی یا بت پرستی کا راستہ قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ لیکن شاہی درباروں، تعلیمی اصلاحات یا سائنسی ضروریات سے وابستہ لوگ اسے ایک مفید ٹیکنالوجی سمجھنے لگے،مثلاً سرکاری ریکارڈ، سائنسی تحقیق، اور تعلیمی مقاصد کے لیے۔
عثمانی سلطنت نے فوٹوگرافی کو سب سے زیادہ مثبت انداز میں اپنایا۔ سلطان عبدالمجید اول نے 1850کی دہائی میں اپنی تصویر بنوائی، جبکہ ان کے جانشین سلطان عبدالحمید دوم نے فوٹوگرافی کو ریاستی طاقت کے اظہار کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے اسکولوں، اسپتالوں، فوجی مشقوں اور ریلوے کی ہزاروں تصاویر بنوائیں اور انہیں یورپی حکمرانوں کو بھیجا تاکہ سلطنتِ عثمانیہ کی ترقی اور جدیدیت کو دکھایا جا سکے۔یہاں فوٹوگرافی ایک ’مذہبی خطرہ ‘نہیں بلکہ ایک ’ریاستی ہتھیار‘بن گئی ،یعنی یورپی بیانیے کا مقابلہ کرنے کا ایک ذریعہ۔
توہمات سے حکمت عملی تک : قاجاری ایران میں بھی فوٹوگرافی درباری سرپرستی کے ساتھ آئی۔ ناصرالدین شاہ نے خود فوٹو کھینچنے کا شوق اپنایا۔ ان کے ذاتی البمز میں حرم کی خواتین، فوجی جلوس اور خود کی تصویریں شامل تھیں۔لیکن عوام میں توہمات برقرار رہے۔ کچھ دیہی اور مذہبی طبقات کا خیال تھا کہ تصویر بنوانے سے روح چوری ہو سکتی ہے یا یہ روحانی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے باوجود اشرافیہ اور اعلیٰ طبقات نے اسے جدید شناخت اور سماجی رتبے کی علامت کے طور پر اپنایا۔برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں فوٹوگرافی ایک طرف نوآبادیاتی حکمرانی کا آلہ بنی، تو دوسری طرف مسلمانوں کے لیے ایک تہذیبی سوال۔ انگریز حکام نے ہندوستانیوں کی تصاویر بنا کر انہیں نسلی اقسام میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ،جو اکثر سائنسی سے زیادہ نسل پرستانہ تھی۔مغل سلطنت کے زوال کے بعد برصغیر کے مسلمان پہلے ہی سیاسی، سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پیچھے تھے۔ فوٹوگرافی جیسے جدید آلات سے انہیں ایک جانب یورپی تسلط کا خوف تھا، تو دوسری جانب اصلاحی تحریکوں کی طرف سے جدید علوم کو اپنانے کا دباؤ بھی تھا۔سر سید احمد خان جیسے مسلم مصلحین نے فوٹوگرافی کو تعلیمی ترقی کا حصہ سمجھا۔ دہلی، لکھنؤ اور حیدرآباد جیسےشہروں میں مسلم فوٹوگرافرز نے اسٹوڈیوز قائم کیے اور شادیوں، مذہبی تقاریب، اور ذاتی تصاویر بنائیں۔لیکن دیہی علاقوں اور قدامت پسند علماء کی طرف سے مخالفت جاری رہی۔ فوٹوگرافی کو فتنہ، گناہ اور روحانی فساد کے طور پر دیکھا گیا،یہی مثال اس بات کی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کس طرح معاشرتی و مذہبی اصولوں کو چیلنج کرتی ہے۔
مساجد اور مقدس مقامات کی تصویریں : ایک نازک مسئلہ مقدس مقامات اور مذہبی رسومات کی تصویریں لینا تھا۔ کچھ مسلم معاشروں میں یہ صریح بےحرمتی سمجھی گئی۔ تاہم جب عثمانی اور بعد میں مصری اور ہندوستانی ناشرین نے مکہ اور مدینہ کی تصاویر شائع کیں تو وہ عوام میں مقبول ہوئیں۔ یہ اس بات کی دلیل بنی کہ جدید ٹیکنالوجی بھی دین کی خدمت کر سکتی ہے۔20ویں صدی تک، حج، مساجد اور مذہبی رہنماؤں کی تصویریں عام ہو چکی تھیں، لیکن ان پر نظرِ ثانی کا سلسلہ جاری رہا۔
شک سے قبولیت تک کا سفر :مسلمانوں کا ردِعمل نہ تو سراسر انکار پر مبنی تھا اور نہ ہی اندھی تقلید پر۔ یہ ایک تدریجی، مباحثے اور احتیاط سے بھرپور عمل تھا،جس میں مذہب اور جدیدیت، روایت اور تبدیلی، خوف اور تجسس کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔فوٹوگرافی پر ردِعمل کبھی ایک سادہ ’’ہاں یا ناں‘‘ نہیں رہا۔ کچھ نے اسے حرام قرار دیا، کچھ نے گلے لگایا اور اکثر لوگوں نے درمیانی راستہ اختیار کیا،جیسا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ کیا ہے۔چاہے وہ پرنٹنگ پریس ہو، سیٹلائٹ ٹی وی ہو یا سوشل میڈیا۔آج فوٹوگرافی مسلم معاشروں کا لازمی حصہ ہے،شناختی کارڈ سے لے کر انسٹاگرام تک، عبادات سے لے کر احتجاج تک، سب کچھ اس میں محفوظ ہو رہا ہے۔ ڈاگیروٹائپ سے ڈیجیٹل دور تک کا یہ سفر طویل اور پیچیدہ رہا، لیکن اس نے مسلمانوں کو تصویر، نمائندگی اور طاقت جیسے بنیادی سوالات پر سوچنے پر مجبور ضرور کیااور یہ مکالمہ آج بھی جاری ہے۔
[email protected]