سید اعجاز
ترال//ترال قصبے سے 4 کلو میٹر دورشکار گاہ ترال ایک ایسا صحت افزا ور تاریخی جگہ ہے جو ہزاروں کنال اراضی پر پھیلا ہے تاہم چند سال پہلے محکمہ نے یہاں زمین کے ایک بڑے حصے پر تار بندی کی اور اس میں’ہانگل بریڈنگ سنٹر ‘بنایا اور تب سے لیکر آج تک اس علاقے میں کسی کو بھی داخل ہو نے کی اجازت نہیں ہے ۔ پارک کے ایک حصے میں نہ صرف قصبے کے لوگ بلکہ وادی کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ،سکولوں ، کالجوںاور یونیورسٹیوں کے طلباء گرمی کے ایام میں یا عید کے موقع پر نظرآتے ہیں۔چند روز پہلے محکمہ سیاحت نے بس اسٹینڈ ترال میں ایک بورڈ چسپاں کیا جس پر انہوں نے شکار سمیت ترال کے سیاحتی اور تاریخی مقامات کی جانکاری درج کی ہے ۔اس بورڈ کو دیکھنے کے بعد مختلف علاقوں سے آئے نوجوانوں نے شکار گاہ کا بھی دورہ کیاتاہم لوگوں کی آواجاہی دیکھ کر محکمہ وائلڈ لائف نے اس جنگلاتی حصے میں داخل ہونے پر لوگوں سے25روپے فی کس فیس وصول کرنا شروع کیا جبکہ کچھ لوگوں نے بتایا کہ ان سے50روپے کا تقاضاکیا گیا۔ محکمہ کا کہنا ہے کہ صرف25روپے وصول کیاجاتا ہے۔ترال اوردیگر علاقوں سے یہاںآنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پارک کے اندر صرف کائرو کے درخت موجود ہیں جبکہ بیت الخلا،کوئی میز یا؎گرمی سے بچنے کے لئے چھتری وغیرہ کا انتظام نہیں ہے۔انہوں نے کہا 10روپے کا داخلہ فیس کسی حد تک قابل قبول تھا لیکن یہاں زیادتی ہورہی ہے ۔پانپور اور پلوامہ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں سے مایوس ہوکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ انہوں نے کہاکہ اگر جنگل میں داخل ہونے پر کوئی فیس لی جاتی وہ ٹھیک تھا لیکن یہاں کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔کچھ کارو باری افراد نے بتایا کہ سرکار سیاحت کو بڑھاوا دینے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن یہاںنوجوانوں کے روزگار پر لات مار رہے ہیں۔اس سلسلے میں وائلڈ لائف وارڈن سہیل احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہ محکمہ سیاحت کا اس پارک سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ وائلڈ لائف سینکچوری ہے ۔ادھر ممبر اسمبلی ترال رفیق احمد نائیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے معاملہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اٹھایاہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاحتی شعبے کوپروان چڑھانے کیلئے یہاں آنے والے سیاحوں سے کوئی داخلہ فیس وصول نہیں کرلینی چاہئے۔