Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ملت حنیف تجلیات ادراک

Mir Ajaz
Last updated: June 6, 2025 11:05 pm
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE
ڈاکٹر عریف جامعی  
قرآن بین الفاظ میں اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ لوگ ابتداء میں ایک ہی ملت، یعنی ملت توحید کے ساتھ وابستہ تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان اختلاف ہونا شروع ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ اختلاف ذات باری تعالیٰ کی توجیہ کے ساتھ ساتھ رموز بندگی میں بھی ہوا۔ دراصل امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ لوگ رب تعالیٰ کی کنہ کے بارے میں قیل و قال سے کام لینے لگے۔ یہ ایک ایسی بحث تھی جس کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکتا تھا، کیونکہ خدا کی ذات کو راست طور پر جاننا انسان سے مطلوب تھا اور نہ ہی یہ اس کے لئے ممکن تھا۔ انسان کو مراسم عبادت بھی اَن دیکھے خدا کے سامنے ہی بجا لانا تھے۔ انسان زیادہ دیر تک نادیدہ خدا کی بندگی پر قانع نہ رہ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے خدا کے تصور کو مجازی پیراہن میں ملتبس کرنا شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے انسان نے صنم تراشنا شروع کیے۔ اب جو لوگ اپنی فطرت پر قائم رہے، انہوں نے تصور خدا میں اس ملاوٹ کو قبول نہیں کیا۔ یہیں سے لوگ شدید اختلاف میں پڑ گئے۔
رب تعالیٰ نے اپنے منصوبے کے تحت اپنے پیغمبر بھیج کر حق اور باطل کا فرق واضح فرمایا۔ اس سلسلے میں قرآن کا ارشاد ہے: ’’سب لوگ ایک دین پر تھے، پھر اللہ نے انبیاء خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے، اور ان کے ساتھ سچی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں میں اس بات میں فیصلہ کرے جس  میں وہ اختلاف کرتے تھے۔‘‘ (البقرہ، ۲۱۳) ظاہر ہے کہ کتاب ہدایت لوگوں کو عدل و قسط پر قائم رکھنے کے لئے بھیجی جاتی تھی۔ اب جہاں تک عدل و قسط کا تعلق ہے تو اس کا تعلق فقط اس عدل و انصاف سے نہیں ہے جس کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے یا جس کی خاطر انسان کو قاضی کے سامنے اپنی روداد سنانا پڑتی ہے۔ دراصل اس کا تعلق انسان کی زندگی کے تمام معاملات سے ہے، کیونکہ انسان صرف محسوس صنم ہی نہیں تراشتا، بلکہ وہ ہوا و ہوس کے آگے سر تسلیم خم کرکے ہر خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک الگ بت تراش لیتا ہے۔ جب انسان اپنی لگام خواہش کے سپرد کرتا ہے، تو وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا ہے۔ تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔‘‘ (ص ، ۲۶) یہی وجہ ہے کہ انسان کو ہر صورت حال میں قسط پر قائم رکھنے کے لئے رسولوں اور کتابوں کو بھیجا جاتا رہا۔ (الحدید، ۲۵)تاہم انسان کی ’’ہزارہا خواہشات‘‘ایسی ہوتی ہیں جن پہ اس کا ’’دم نکلتا‘‘ ہی رہتا ہے، اس لئے وہ اپنی زندگی میں ’’دین کو قائم‘‘ نہیں کر پاتا، جس کا خدا کی کتابیں اور اس کے رسول تقاضا کرتے آئے ہیں:’’اللہ تعالی نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کیا، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراھیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا (کہ) اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔‘‘ (شوریٰ، ۱۳) البتہ انسان بہت جلد ملت توحید سے کنارہ کش ہوکر شرک کا دلدادہ بن گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نوح علیہ السلام، جنہیں آدم ثانی کہا گیا ہے، کے زمانے میں ہی انسان آباء پرستی کی اس دلدل میں پھنس گیا، جس نے شرک کا رخ اختیار کیا۔ اس کا واضح ثبوت ان کے وہ بت ہیں جو انہوں نے اپنے بزرگوں کے نام پر گڑھ لیے تھے۔ ابن عباسؓ کے مطابق، قوم نوح کے جھوٹے خدا یعنی وَدّ، سُوَاع، یَغوث، یَعوق اور نَسر، جن کا ذکر سورہ نوح کی آیت ۲۳ میں آیا ہے، اصل میں ان کے اگلے بزرگ تھے، جن کی حد سے زیادہ تعظیم نے انہیں شرک میں مبتلا کیا۔ واضح ہوا کہ آباء پرستی ہو یا شخصیت پرستی، دونوں شرک پر منتج ہوتی ہیں۔ یعنی آباء اور مخصوص اشخاص کی بیجا محبت اور عقیدت بدترین اصنام پرستی کی شکل اختیار کرتی ہے۔
ظاہر ہے تمام پیغمبران کرام نے شرک کا قلع قمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے شرک کے پورے نظام فکر کو کچھ اس طرح للکارا کہ اس کی فکری بنیادیں ہمیشہ کے لئے کھوکھلی ہوگئیں۔ واضح رہے کہ بابل (موجودہ عراق) ایک ترقی یافتہ تہذیب تھی۔ سیدنا ابراہیمؑ اسی ماحول میں پلے بڑھے۔ اس لئے آپ نے ان کے پورے نظام فکر کو سمجھا۔ منصب نبوت پر فائز ہونے سے قبل ہی رب تعالی نے آپ کو ایسی سوجھ بوجھ عطا فرمائی تھی کہ آپ نے ان کے نظام فکر کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا۔ آپ کی اس غیر معمولی ذہانت کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے پہلے ہی سے ابراھیم کو اس کی صلاحیت عطا کی تھی اور ہم اس سے واقف تھے۔‘‘(الانبیاء، ۵۱) اس نظام میں چونکہ اجرام فلکی (چاند، ستاروں، سورج، بطور خاص) کو الوہیت اور ربوبیت کا درجہ حاصل تھا، اس لئے ان سب سے سیدنا ابراہیمؑ نے اس طرح برأت کا اعلان کیا: ’’میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(الانعام، ۷۹)سیدنا ابراہیمؑ نے ساتھ ساتھ آباء پرستی کی جڑ پر بھی تیشہ چلایا۔ اس سلسلے میں آپ کا اپنے والد، جو اس قوم کا خاص نمائندہ تھا، کے ساتھ مکالمہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم آپ نے والد کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی آڑے ہاتھوں لیا: ’’جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ کیسے بت ہیں جن پر تم مجاور بنے بیٹھے ہو۔‘‘ (الانبیاء، ۵۲) ظاہر ہے کہ نہ تو آپ کے والد سے کوئی جواب بن پڑا اور نہ ہی قوم کوئی خاطر خواہ جواب دے سکی۔ انہوں نے فقط اپنی آباء پرستی کا حوالہ دیا: ’’انہوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی پوجا کرتے پایا ہے۔‘‘ (الانبیاء، ۵۳) ظاہر ہے کہ آباء پرستی کا حوالہ کوئی دلیل نہیں بن سکتا تھا، اس لئے سیدنا ابراہیمؑ نے اس حوالے کو رد کیا: ’’کہا البتہ تحقیق تم اور تمہارے باپ دادا صریح گمراہی میں رہے ہو۔‘‘ (الانبیاء، ۵۴) واضح رہے کہ آباء پرستی اندھی تقلید پر مبنی ہوتی ہے، جہاں سوال اور تنقید کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس میں انسان لکیر کا فقیر بنے رہنا پسند کرتا ہے۔ اس صورت حال میں انسان کبھی کبھی بھولا یا سادہ لوح بھی بن جاتا ہے اور علم و برہان پر کھڑے روایت شکن سے عجیب و غریب استفسار بھی کر ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ سے اس طرح سوال کیا جاتا ہے: ’’انہوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس سچی بات لایا ہے یا تو دل لگی کرتا ہے۔‘‘ (الانبیاء، ۵۵) سیدنا ابراھیم اس بات کا جواب اس علم کی بنیاد پر دیتے ہیں، جو ان کے پاس آچکا تھا، یعنی جس کے وہ شاہد یا گواہ تھے: ’’کہا بلکہ تمہارا رب تو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، جس نے انہیں بنایا ہے، اور میں اسی بات کا قائل ہوں۔‘‘ (الانبیاء، ۵۶)اسی علم اور انہی دلائل کی بنیاد پر آپ نے حکمران وقت کے دربار میں جاکر اس کے جھوٹ (باطل، شرک) پر کھڑے قصر کو ہلا کر رکھ دیا۔ تاہم حاکم وقت کے ساتھ آپ کا مکالمہ کچھ اس انداز کا تھا  جس میں اسے اپنی طاقت پر فخر کرنے کا خوب موقع ملا۔ ظاہر ہے اس طرح کا سوال صاحب اقتدار شخص سے ہی کیا جاسکتا تھا۔ سیدنا ابراہیم نے اس سے کہا: ’’میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔‘‘ (البقرہ، ۲۵۸) طاقت کے نشے میں چور بادشاہ نے کٹ حجتی سے کام لیتے ہوئے جواب دیا: ’’میں جِلاتا اور مارتا ہوں۔‘‘ (البقرہ، ۲۵۸) ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں موت و حیات کی بحث کو جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس لئے سیدنا ابراہیم نے کچھ ایسا سوال کیا جو بہرحال خدا کا پیغمبر ہی کر سکتا تھا۔ آپ نے پوچھا: ’’تو اللہ سورج کو لاتا ہے مشرق سے؛ تو اس کو مغرب سے لے آ۔‘‘ (البقرہ، ۲۵۸) اس برہان قاطع کے سامنے بادشاہ بے بس ہوگیا اور اس کی جھوٹی خدائی ہوا ہوگئی: ’’تو ہوش اڑ گئے کافر کے۔‘‘ (البقرہ، ۲۵۸)
سیدنا ابراہیم ؑ کے اس رویے میں بھی ہر مؤمن صادق کے لئے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہے، جس طرح توحید کا بول بالا کرنے والے ان کے ہر کام میں موحدین کے لئے ایک نمونہ ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’بیشک ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا! بیشک ہم تم سے اور ان سے بیزار ہیں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔‘‘ (الممتحنہ، ۵) ظاہر ہے  دعوت حق، جو دعوت توحید کا ہی دوسرا نام ہے، ایک کار عزیمت ہے، اس لئے اس کام کو مختلف صورتوں میں جاری و ساری رکھنے کے لئے اسے ’’عظیم جدوجہد‘‘قرار دیا گیا ہے: ’’إن من عظم الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر۔‘‘ (الترمذی) اس کا مطلب یہ ہے کہ توحید ایک موحد کو بے باکی کے ساتھ کلمۂ حق کہنا سکھاتی ہے۔ اہل حق پھر اس بات سے نہیں ڈرتے کہ مخاطَب یا مدعو کوئی جابر اور ظالم حکمران ہے یا کوئی عام سطح کا ذمہ دار جو معاشرے میں ظلم و عدوان کا مرتکب ہوتا ہے۔ توحید کی طاقت انسان کو ایسا نڈر بناتی ہے کہ وہ مداہنت کے بت کو توڑ ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست دان یا حکمران کا مداہن (چاپلوس) بنتا ہے اور نہ ہی اپنی مصلحت پسندی کو غیر سیاسی رویہ (اپولٹسزم) کہنے کا روادار ہوتا ہے۔ یہی بے خوفی اسے “اپنے ہر بھائی، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، کی مدد کرنا سکھاتی ہے۔’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں فرمایا ہے: ’’اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘ (بخاری) یعنی وہ خوف کا بت توڑ چکا ہوتا ہے، اس لئے نہ صرف مظلوم کو ظلم سے بچاتا ہے، بلکہ ظالم کا ہاتھ روک کر اس کی بھی دراصل مدد ہی کرتا ہے۔
اس طرح جب مؤمن ہر طرح کے بیجا خوف سے آزاد ہوجاتا ہے، تو وہ ابراہیم ؑ کی طرح ’’حنیف‘‘ (یک رخا) بن جاتا ہے، جس کی ساری کی ساری دلچسپی فقط خالق کائنات کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایسا انسان حرص و ہوس سے پاک ہوتا ہے۔ اس کا ملجا و ماویٰ رب تعالی کی ذات اقدس ہوتی ہے۔ وہ اپنا دین اللہ کے لئے خالص کرتا ہے۔ وہ خدائے واحد کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ وہ احسان کی اعلی ترین سطح پر فائز ہوجاتا ہے۔ وہی ابراہیم ؑ کی ملت (طریقۂ کار) توحید کا راہرو بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ اللہ تعالی سے محبت کا حق ادا کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’اس شخص سے بہتر اور کس کا دین ہوسکتا ہے، جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہوکر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اس ابراہیم کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔‘‘ (النساء، ۱۲۵)غرض سیدنا ابراہیمؑ حنیف اور خلیل ہونے کے ساتھ ساتھ محسن اور مسلم بھی تھے۔ آپ نے مکہ کی وادیٔ غیر ذی زرع میں اللہ کے آخری نبیؐ کی بعثت کے لئے دعا فرمائی تھی۔ (البقرہ، ۱۲۹) اور جب آخری نبیؐ سے صحابہؓ نے قربانی کے بارے میں استفسار کیا، تو آپ ؐنے فرمایا: ’’یہ آپ کے والد، ابراہیم کی سنت ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقعے پر کی جانے والی قربانی سید نا ابراہیمؑ کی دین حق کو قائم کرنے کی خاطر پیش کی گئی قربانیوں کی علامت ہے، جو شرک صنم کدوں کے سامنے ملت توحید کا شعار بن کر تا قیامت کھڑی رہے گی۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں  لا  الہ  الا   اللہ
<[email protected] 9858471965
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ملک بھر میں عیدالاضحیٰ جوش و خروش سے منائی گئی
برصغیر
جامع مسجد میں نماز عید کی اجازت نہ دئے جانے پر دکھ ہے، حکومت کو عوام پر بھروسہ کرنا چاہئے:وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
تازہ ترین
جموں وکشمیر میں عید الالضحیٰ کی تقریب سعید مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی
تازہ ترین
تاج محل سے امن کی دعا، شاہی جامع مسجد میں ادا کی گئی نماز عیدالاضحیٰ
تازہ ترین

Related

مضامین

عصرِ حاضر میں عیدالاضحی پر قربانی کی معنویت سرحدِ ادراک

June 6, 2025
مضامین

رسم قربانی باقی ہے روح قربانی تلاش کر

June 6, 2025
مضامین

حج بیت اللہ۔ خدائے لم یزل سے اُلفت کا مظاہرہ فکرو فہم

June 6, 2025
مضامین

سنت ابراہیمی کا پیغام ! غور وفکر

June 6, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?