یو این آئی
غزہ//غزہ کے حوالے سے ایک بار پھر عالمی برادری کا ضمیر امتحان کے دروازے پر کھڑا ہے جہاں جنگ کی ہولناکیوں کے بیچ محصور لاکھوں فلسطینی خوراک، پانی اور طبی امداد سے محروم ہیں۔اقوام متحدہ، مصر اور جرمنی جیسے اہم ممالک کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ فوری طور پر غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے، لیکن تاحال صورت حال میں کوئی عملی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔جرمنی کے چانسلر فریڈرِش میرٹس نے قابض ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ انسانی امداد کی فوری اور محفوظ ترسیل اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل کو غزہ میں امدادی قافلوں کو بلا روک ٹوک داخل ہونے دینا چاہیے تاکہ بھوک، قحط اور طبی مسائل کا شکار عوام کی جانیں بچائی جا سکیں۔اسی سلسلے میں قاہرہ میں نیوز کانفرنس کے دوران مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی کا بیان عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے مترادف تھا۔ انہوں نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈال کر انسانی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے، جو کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔اْدھر ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مککین نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اگر امداد کی فراہمی کے راستے فوری طور پر نہ کھولے گئے تو غزہ میں ایسا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مکمل رسائی، جنگ بندی اور کھلے راستے درکار ہیں، ورنہ نتائج خوفناک ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کا عملہ دنیا کے سب سے زیادہ تجربہ کار کارکنوں پر مشتمل ہے اور اگر انہیں رسائی دے دی جائے تو وہ بڑے پیمانے پر خوراک اور دیگر ضروریات کی فراہمی ممکن بنا سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں لاکھوں افراد روزانہ کی بنیاد پر خوراک، صاف پانی اور طبی سہولیات سے محروم ہیں۔ بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر امداد کی فراہمی فوری بحال نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔