مختار احمد قریشی
گاؤں میں ایک شخص ہاشم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہر وقت دوسروں کی برائی کرنا، کسی کی غیر موجودگی میں اسے نیچا دکھانا اور جب وہی شخص سامنے آتا تو تعریفوں کے پل باندھنا، یہ سب ہاشم کی عادتوں میں شامل تھا۔ وہ ہر محفل میں باتوں کا بادشاہ بن کر بیٹھتا، دوسروں کی کمزوریاں بیان کرتا اور خود کو سب سے بہتر ثابت کرتا۔
ارے وہ احمد؟ کچھ کام کا نہیں۔ بس اوپر اوپر سے شریف لگتا ہے۔
اور پھر اگلے ہی دن احمد سامنے آتا تو ہاشم مسکرا کر کہتا،
“بھائی احمد۔ آپ جیسا بندہ تو اس گاؤں میں کوئی نہیں۔ بہت دل صاف ہے آپ کا۔”
شروع میں لوگ اس کی باتوں میں آ جاتے، اسے ہنسی خوشی سنتے بھی رہے مگر رفتہ رفتہ اس کی حقیقت سب پر عیاں ہونے لگی۔ کچھ سادہ دل لوگ اب بھی اس کی باتوں کو اہمیت دیتے، مگر جو سنجیدہ مزاج اور سمجھ دار لوگ تھے، انہوں نے ہاشم کی باتوں کو ہوا میں اُڑانا سیکھ لیا تھا۔ وہ اسے ہنسی میں ٹال دیتے یا نظر انداز کرتے۔
ایک دن گاؤں میں ایک بزرگ استاد، جناب یوسف صاحب، کئی سال بعد واپس آئے۔ ان کی واپسی کی خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ سب ان سے ملنے آئے، اور ہاشم بھی۔ یوسف صاحب کے سامنے بھی ہاشم نے اپنی پرانی عادت کے مطابق کچھ لوگوں کی برائیاں شروع کر دیں مگر اس بار یوسف صاحب نے خاموشی سے ایک آئینہ اپنی جیب سے نکالا اور ہاشم کے سامنے رکھا۔
ہاشم حیران ہو کر بولا،
“یہ کیا ہے؟”
یوسف صاحب مسکرائے اور کہا،
“یہ وہ شے ہے جس سے انسان کو اپنی شکل، اپنا اصل دکھائی دیتا ہے۔ تم دوسروں کی برائیاں کرتے ہو مگر شاید کبھی خود کو نہیں دیکھا۔ تم نے کبھی سوچا، اگر سب تمہارے جیسے ہوں تو کیا دنیا چل پائے گی؟”
یہ بات محفل میں بیٹھے ہر فرد کے دل میں اتر گئی۔ ہاشم کی زبان رک گئی۔ اس دن پہلی بار اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نظر آئے۔ وہ چپ چاپ اٹھا اور محفل سے نکل گیا
اس کے بعد گاؤں میں کئی دنوں تک ہاشم نظر نہیں آیا مگر جب وہ دوبارہ آیا، تو کچھ بدلا بدلا سا لگا۔ وہ کم بولا، زیادہ سنا، اور جب بھی بولتا تو نرم لہجے میں۔ لوگ حیران تھے، مگر یوسف صاحب جانتے تھے کہ بعض اوقات انسان کو سدھارنے کے لیے صرف ایک آئینہ کافی ہوتا ہے جس میں وہ خود کو دیکھ لے۔
ہاشم کئی دن گاؤں سے غائب رہا۔ یوسف صاحب کی باتوں نے جیسے اس کے اندر کوئی خاموش طوفان بیدار کر دیا تھا۔ وہ اپنے رویئے پر غور کرنے لگا۔ ایک شام تنہائی میں بیٹھا، اس نے اپنے ماضی کے الفاظ اور لوگوں کے چہرے یاد کئے وہ چہرے جن پر کبھی مسکراہٹ ہوتی تھی اور اس کی برائیوں کی زہر آلود باتوں کے بعد وہ چہرے سنجیدہ یا مایوس ہو جاتے تھے۔
وہ سوچنے لگا:
“آخر میں کس کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ وہ لوگ جو میرے منہ پر مسکراتے تھے مگر میرے پیٹھ پیچھے مجھے منافق کہتے تھے؟”
ہاشم نے ایک فیصلہ کیا۔
اگلے دن وہ گاؤں کی مسجد میں نماز کے بعد کھڑا ہوا۔ تمام نمازی اسے حیرانی سے دیکھنے لگے۔ ہاشم کی آواز کانپ رہی تھی، مگر دل سے صاف تھی۔
“میرے بھائیو۔ میں آج آپ سب سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ میں نے برسوں آپ کی پیٹھ پیچھے باتیں کیں، آپ کو نیچا دکھایا اور آپ کے سامنے جھوٹی تعریفیں کیں۔ یوسف صاحب نے مجھے وہ آئینہ دکھایا جس میں میں نے پہلی بار خود کو دیکھا اور مجھے اپنی اصل صورت پر شرم آئی۔”
ایک لمحے کو مسجد میں خاموشی چھا گئی۔ کچھ لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ مگر پھر ایک بوڑھے شخص نے آگے بڑھ کر ہاشم کو گلے لگا لیا۔ اس کے بعد کئی لوگ کھڑے ہو گئے، اور سب نے ہاشم کو تسلی دی۔
ایک نوجوان بولا،
“ہاشم بھائی، ہم سب انسان ہیں۔ غلطی ہر کسی سے ہوتی ہے، مگر سچائی سے اس کا اعتراف صرف بہادر کرتے ہیں۔”
اس دن کے بعد ہاشم واقعی بدل گیا۔ وہ زیادہ سننے لگا، کم بولنے لگا۔ اگر کبھی کسی کی برائی سننے کو ملتی، تو کہتا:
“آؤ، پہلے اس سے مل کر بات کریں، ہو سکتا ہے ہماری سوچ غلط ہو۔”
اب وہ گاؤں کا وہی ہاشم نہیں تھا بلکہ ایک ایسا شخص تھا جو دوسروں کی اصلاح کی مثال بن گیا۔ یوسف صاحب اکثر کہتے،
“جس دل میں سچائی کی جھلک اتر جائے، وہ آئینہ بن جاتا ہے روشنی بانٹنے والا آئینہ۔”
���
بونیار، بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛8082403001
[email protected]