بشارت بشیر
عید قربان کی آمد آمد ہے تقبل اللہ منا ومنکم اس حوالہ سے چند گذارشات اس تمہید کے ساتھ کہ عصر رواں میں ماحولیاتی آلودگی اپنے عروج پر ہیں ،اس آلودگی کے اسباب ایک نہیں بہتیرے گنے جاسکتے ہیں۔ صفائی اور صحت کے تعلق سے بے شمار مسائل نے جنم لیا ہے۔ نت نئی بیماریاں الٰہی مخلوق پر حملہ زن ہیں۔ ہم جس دین مطہر سے وابستہ اُس نے جہاں قلوب کی طہارت اور ابدان کی پاکیزگی کو زبردست اہمیت دی ہے ۔ وہاں ماحول کی نفاست اس کے یہاں سر فہرست رہی ہے۔ اس نے توبہ کرنے والے اور صفائی پسند لوگوں کو اللہ کا محبوب گردانا ہے پاکیزگی کو نصف ایمان سے تعبیر کیا ہے ۔(مسلم) آج جس کعبۃ اللہ کے طواف کے لئے لاکھوں لوگ شہر مکہ میں خیمہ زن ہیں اس مرکزِ عبادت کے گرد مستانہ وار گھوم رہے ہیں۔ اس گھر کے مالک نے اس کے معمار سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس کی تعمیر کے وقت ہی اس امر سے آگاہ فرمایا تھا کہ میرے اس گھر کو طواف ، اعتکاف اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو ۔(البقرہ) لیکن اسے ہماری کور بختی ہی کہیے کہ بہت سے مقامات پر مسلمان بستیوں کے پہچان ہی اب یہ بن گئی ہے کہ وہاں غلاظت اور گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں ۔ عفونت اور بدبو سر چڑ ھ کے بولتی ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے یہ ؟ رمضان کی آمد آمد ہو یا ایام عید ہوں ہر سو گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔ بات تلخ ہے ہی مگر درست ہے نا۔ کہ مسلمان بستیوں میں تھیلوں ، پلاسٹک لفافوں ، غذائی اجناس ، روٹی کے بچے کھچے ٹکڑوں ، پھٹے پرانے کپڑوں ، مشروبات کے ڈبوں اور بوتلوں کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ کیا یہ کوئی اور ہمارے محلوں علاقوں میں پھینک کے جاتا ہے ۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ غیر مسلم برادری کی بستیوں میں بھی کیا ایسا ہوتا ہے موازنہ کرنے ہم بیٹھ نہیں گئے ہیں۔ اپنے معاشرے کی بات اور اپنا احتساب کرتے ہیں بات جو کررہے ہیں وہ سچ ہے یا الزام ہے ہمیں بتانا ہوگا ۔ برناڈ شاہ کو اسلام سے شدید بغض تھا اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن ہندوستان کے ایک عالم دین نے جب اسلام کی اصل تصویر،مطہر نظام اور پاکیزہ ماحول کے قیام کے لئے اس کے حیات آفرین پیغام سے آگاہی دلائی وہ اسلام کی حقانیت کا معترف تو ہوگیا اور کھلے لفظوں میں کہا اسلام مجھے اب بہت عزیز ہے۔ لیکن مسلمان نہیں کیونکہ وہ اس دین ِ پاکیزہ کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ، بات بالکل درست ہے ہم جس دین ِ نفاست سے منسلک ہیں اس نے انسانی ابدان و اجسام کی طہارت پر ہی نہ صرف زور دیا ہے بلکہ کپڑوں تک کو پاکیزہ رکھنے ٗ خوشبو استعمال کرنے اور بالوں کو سنبھال سوارنے کا درس بھی دیا ہے۔ ماحول کی کثافت سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ درختوں اور پودوں کی بوائی اور نگہداشت کرنے کے ساتھ ساتھ حالتِ جنگ میں بھی انہیں جلانے ، کاٹنے سے منع کیا ہے ۔ بیت الخلا ء میں جانے کے آداب اور صفائی کے احکام سے آگاہ کیا ہے۔ برناڈ شاہ کا متذکرہ جملہ ہمیں کانٹے کی طرح چبھنا چاہئے اور واقعی ہمیں پاکیزہ دین کی جانب لوٹنا ہوگا۔ واہ حسرتا! یہاں وہ لوگ جو مجذوب ہواکرتے ہیں ۔ گز گز بھر بال ہیں ان کے ، عفونت روح و بدن میں سرایت کی ہوئی ، وضو و غسل کا تصور بھی نہیں کیونکہ دیوانے ہیں مگر ہمارے یہاں درویش ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ گندگی اُن کے ذھن و ضمیر پر چھا گئی ہیں۔ بات طہار ت اور پاکیزگی کی ہورہی ہے۔ یہ کیا ہمارے محلوں میں کوڑے کے ڈھیر ، بدبو برسات ہو نہ ہو سڑکوں پر گندے پانی کا جماؤاور گٹر نہروں دریاؤں اور ندی نالوں میں صاف نظر آتا ہے۔ یہ ہمیں ہوا کیا ہے کہ اپنا مکان صاف ستھرا لیکن گھروں کے کوڑے کے ڈھیر اور بوسیدہ و استعمال شدہ اشیاء کا انبار نکال کے کسی ہمسایہ کے دروازے پر ڈال کر اور سڑک پر پھینک کر چل دئیے یہ تک احساس نہیں کہ ہمسایہ کو تکلیف کا شکار بنانا اور ماحول کو بگاڑنا کس قدر سنگین گناہ ہے۔ اور پھر لگے دہائی دینے کہ ماحول آلودہ ہوگیا ہے۔ _یہ رہی گھروں کی بات مسجدوں کو دیکھئے وہاں کے بیت الخلاؤں کا جائزہ لیجئے ، واش رومز کو دیکھئے کیا حالت بنا رکھی ہے ہم نے ان کے اندر جانے کو جی ہی نہیں چاہتا __ ہاں کئی مقامات پر حالت اطمینان بخش ضرور ہے مگر مجموعی اعتبا ر سے بے حد رنج دہ۔ شادی بیاہ کے مواقع کو دیکھئے کھانے کے بعد دھکم ماری تو ہوتی ہے ہی لیکن پھر ڈسپوزل کا کیا کرتے ہیں۔ نالیوں میں ، دکانوں کے سامنے ، بیچ سڑک پر ہماری نفاست پسندی کا بھانڈا پھوٹتا ہے۔ کیا یہ بھی کسی کی سازش ہے؟ اب الحمد اللہ! عید قربان آرہی ہے بات تو اسی موضوع پر کرنی تھی لیکن تمہید طولانی ہوگئی یہ قلم بھی ہاتھ میں لیتا ہوں تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ برداشت میرے قارئین کو کرنا ہی ہوگا۔ بہرحال ہم نے قربانی کے جانور یا تو خرید رکھے ہیں یا خریدنے جارہے ہیں۔ ایک حکم ہے جس کی تعمیل میں ہم بدل و جان آمادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ روحِ قربانی سے بھی آشنا کرے لیکن کیا قربانی کے جانور کے ذبح کرنے سے پہلے بعد کے مرحلے پر ہم نے سوچا بھی ہے کہ جانور کے فضلے کا کیا کریں۔ آلائشوں اور آلودگیوں کو کیسے ٹھکانے لگائے تاکہ اس عظیم عبادت اور بہتر عمل کے بعد ہم کسی کی بددعا ؤں کی زد میں نہ آئے ماحول عفونت زدہ نہ بنے لوگوں کی زبانوں کے تیر و نشتر سے روح و دل گھائل نہ ہو۔ قبل اِس کے یہ سب کچھ ہو، ہم غور کریں کہ قربانی خوشی خوشی کریں گے۔ لیکن بعد میں ان کے فضلے اور آلائشوں کو بھی ڈھنگ سے ایسے ٹھکانے لگائیں گے کہ نہ ماحول خراب ہو اور نہ کوئی طبیعت مکدرہو۔ گرمیوں کا موسم ہے کہیں یہ آلائش اور فضلہ بیماریوں کا سبب نہ بن جائے۔ ایسا بھی امکان ہے کہ عید قربان کے موقع پر بارشیں بھی ہوں۔ موسم کی اپنی حدت بھی ہے ایسے میں امراض کے پھیلنے کازیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ ان آلائشوں پر بیکٹیریا جھپٹتے ہیں تو پھر بیماریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اِن آلودگیوں اور آلائشوں سے بچنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ انہیں کسی گڑھے میں دفن کریں۔ جانور کو گڑھے پر ہی ذبح بھی کریں۔ تاکہ خون بھی اسی میں جذب ہوجاے۔ پھر اسی گھڑے میں فضلہ اور دیگر آلائشیں بھی ڈال دیں ، پلاسٹک جس میں یہ جمع کیا ہو وہ اس گڑھے میں نہ ڈال دیں پھر اس میں مٹی ڈال دیں آلائشوں کا حجم کم ہونے کی وجہ سے مٹی اندر دھنس جائے گی۔ اضافی مٹی ڈال دے اچھی کھاد بن جائے گی۔ پودے اور درخت اس پر لگائے جاسکتے ہیں ۔ ممکن ہے آپ کے علاقے کی بلدیہ بھی ان آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کے حوالہ سے کچھ فکر مند ہو (جس کی توقع بہت ہی کم ہے) لیکن کسی پر توقع کرنے سے پہلے ہم اس بات کا ادراک کریں کہ ہم خود اس معاملے کے تعلق سے کتنے حساس ہیں۔_ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھلے کئی برسوں سے کھالوں کا کاروبار کس قدر زوال پذیر ہے وجوہات ہم اور آپ سب جانتے ہیں ۔ کہاں وہ زمانہ کہ ان کھالوں کے حصول کے لئے ادارے اور کھالوں کے کاروباری چھیناجھپٹی کرتے تھے اور کہاں یہ عالم آج ان کھالوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں نرخ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ادارے بھی اب اس معاملے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور کاروباری بھی ان ایام میں علاقوں میں دیکھے نہیں جاتے اس صورتحال میں پچھلے دو تین برسوں میں کئی مقامات پر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ کھالیں بھی کچھ لوگوں نے کوڑے کے ڈھیروں پر ڈال دئے ہیں اور کتے ان پر جھپٹ کر راہ گیروں اور بچوں کے لئے شدید مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ان اداروں کی جن کی رفتار ان پوست ہائی قربانی پر بہت حد تک منحصر ہوتی تھی اب وہ اس حوالے سے تہی دست ہوگئے ہیں۔ اس لئے ان کی مدد بھی عید قربان کے موقعے پر اپنے پر لازم کریں۔ اور ان کھالوں کو قابل استعمال بنانے کے لئے ان کی دباغت کرائیں خود استعمال کریں اپنے کسی دوست کو دے دیں یا کسی اچھے استعمال میں لائیں ہاں اچھی قیمت نسبتاً ملے تو قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کے لئے قائم اداروں کے لئے وہ مختص کریں۔بہرحال ماحول کو تعفن زدہ ہونے سے بچانے کے لئے ان کھالوں کو بیچ سڑک پر ، ندی نالوں میں اور کوڑے دانوں میں نہ پھینکیں۔_پھر کہوں گا کہ قربانی عبادت کے ثواب و اجر کے کیا کہنے بندگی تو حکم کی تعمیل کا ہی دوسرا نام ہے ۔ایک عبادت کی انجام دہی میں دوسرے احکام کو نظر انداز کرنا شیوۂ بندگی نہیں اسلام کی روح ہی یہ ہے کہ اپنے کسی عمل سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ یہ بھی تو حکم ہی ہے گھروں اور ماحول کو صاف ستھرارکھو گذر گاہوں ، شاہراؤں کو گندہ نہ کرو ۔ راستے سے ضرر رساں چیزوں کو ہٹاؤ اسلئے کہ قربانی کی ان آلائشوں کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانا بھی احکام میں شامل ہے۔ ایسا انتظام کریں کہ گندگی نہ پھیلے اور ہم ایک نیکی کرنے کے بعد ایک گناہ کے مرتکب نہ ہوں۔ اللہ بچائے۔
رابطہ۔7006055300