Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

! عصرِ حاضر میں صحافت | چیلنجز، تقاضے اور ایک مثالی صحافی کا کردار عقل و دانش

Towseef
Last updated: May 27, 2025 9:33 pm
Towseef
Share
17 Min Read
SHARE

ڈاکٹر صدیقی نسرین فرحت

صحافت، جو عربی زبان کے لفظ ’’صحیفہ ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی کتاب، نامہ، یا رسالہ کے ہیں، محض خبروں کی ترسیل کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا مقدس اور ذمہ دارانہ پیشہ ہے جو کسی بھی معاشرے کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اسے صحیفہ نگاری، اخبار نویسی یا جرنلزم جیسے مختلف ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایک وسیع میدانِ عمل ہے جہاں افراد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ کچھ صحافی اسے مکمل روزگار کے طور پر اپناتے ہیں، جبکہ دیگر اسے شوقیہ طور پر یا جز وقتی بنیادوں پر اختیار کرتے ہیں، جسے ’’فری لانس جرنلزم ‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔ تاہم صحافت کا یہ شعبہ کبھی بھی محض تفریح یا ذاتی شہرت کا وسیلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ایسا میدان ہے جو گہری بصیرت، مسلسل محنت اور غیر متزلزل اخلاقی اقدار کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ پیشہ جسے بعض اوقات ’’جمہوریت کا چوتھا ستون ‘‘بھی کہا جاتا ہے، ریاست کے دیگر تین ستونوں (مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ) پر کڑی نگاہ رکھتا ہے اور عوام کو باخبر رکھنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس کی اہمیت اس بات سے عیاں ہے کہ یہ معاشرے میں رائے عامہ کی تشکیل، انصاف کی فراہمی اور حکومتی احتساب کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے صحافت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایک آزاد پریس صرف جمہوریت کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ وہ پائیدار ترقی اور بہتر حکمرانی کے لیے بھی لازمی ہے۔‘‘ یہ بیان صحافت کے عالمی کردار کو اجاگر کرتا ہے جو صرف ملکی سطح تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی امن، استحکام اور انسانی حقوق کے فروغ میں معاون ہے۔

صحافت کے میدان میں کامیابی کوئی آسان ہدف نہیں۔ یہ فن محض کتابوں سے نہیں سیکھا جا سکتا بلکہ تجربات، مشاہدات اور مستقل ریاضت سے نکھرتا ہے۔ اسے ایک پراسرار تجارت سمجھنا غلط ہے کیونکہ اس میں کوئی خاص پوشیدہ نقطے نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل سفر ہے جہاں ہر روز نئے خیالات، واقعات اور تجربات سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہر خبر میں نیا پن اور ہر معاملے میں کوئی خاص نوعیت ضرور ہوتی ہے۔ اس لیے ایک کامیاب صحافی کے لیے لازم ہے کہ وہ دوسروں کے تجربات سے بھی مستفید ہونے کی کوشش کرے۔ یہ سحر طراز شغل تخلیقی قوتوں کے صحیح استعمال سے ہی اپنی مکمل آب و تاب دکھا سکتا ہے۔ وولٹر لپ مین جو بیسویں صدی کے ایک نمایاں امریکی صحافی اور سیاسی مبصر تھے، نے صحافت کو ’’معلومات کی چھان بین اور اسے بامعنی بنانے کا فن‘‘ قرار دیا، جس سے صحافتی عمل کی پیچیدگی اور اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔ ایک کامیاب صحافی کے لیے لازمی لیاقتوں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جسمانی، ذہنی اور اخلاقی، یہ تمام اوصاف ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک کی کمی بھی صحافی کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں کمزور بنا سکتی ہے۔

صحافت کا پیشہ جسمانی مشقت اور صبر کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک صحافی کو صحت مند اور توانا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ صحافتی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے سکے۔ یہ ایک مسلسل مصروفیت کا کام ہے جہاں تعطیلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رات اور دن کی پرواہ کیے بغیر صحافی کو اخبار کے دفتر میں یا بیرون دفتر متحرک رہنا پڑتا ہے۔ اکثر رات گئے تک اخباری کام کرنا، کھانے کے اوقات کا غیر یقینی ہونا اور بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرتے ہوئے خبروں کی ترسیل میں مصروف رہنا پڑتا ہے۔ وقت پر جائے واردات پہنچنا، خواہ اس کے لیے پیدل چلنا پڑے یا غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑے، ایک صحافی کی جسمانی استقامت کا امتحان ہے۔ صحافی کو نہ صرف صدر مملکت، وزیراعظم، گورنر یا وزیراعلیٰ جیسے اہم شخصیات سے ملنا پڑتا ہے بلکہ معاشرے کے پسماندہ اور گندے علاقوں میں رہنے والے نادار انسانوں سے بھی ملاقات کرنی پڑتی ہے۔ وہ صرف پرتعیش ہوٹلوں کی پر تکلف ضیافتوں میں شریک نہیں ہوتے بلکہ فاقہ زدہ علاقوں میں جا کر بھی خبریں لاتے ہیں۔ ان کا سامنا زرق برق لباس والی شادی کی محفلوں سے لے کر حادثاتی اموات کے مقامات پر لاشوں اور شدید زخمی افراد سے بھی ہوتا ہے۔ ان تمام متنوع اور غیر متوقع حالات میں سفر کرنے اور صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے ایک صحافی کا جسمانی طور پر مضبوط ہونا لازمی ہے۔ نازک مزاج، جلد تھک جانے والا اور رنج و آرام پسند شخص اس محنت طلب پیشے کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام نہیں دے سکتا۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق جسمانی صحت نہ صرف فرد کی کارکردگی کو بڑھاتی ہے بلکہ اس کے ذہنی استحکام میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے جو صحافی جیسے دباؤ والے پیشے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ بعض اوقات صحافیوں کو خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے جنگی علاقے، قدرتی آفات کے مقامات یا احتجاجی مظاہرے، جہاں ان کی جسمانی صحت اور قوت برداشت ہی انہیں اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس لیے صحافیوں کو اپنی جسمانی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے تاکہ وہ دباؤ میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔

صحافت میں ذہنی قوتوں کا استعمال جسمانی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ذکاوت، فراست اور ذہنی رسائی کے بغیر یہ ذمہ داریاں کامیابی سے نہیں نبھائی جا سکتیں۔ ایک کامیاب صحافی کے لیے ذہین، معقولیت پسند، ہوشیار اور حقیقت پسند ہونا ضروری ہے۔ وہ حالات حاضرہ کو سمجھنے، اپنی رائے قائم کرنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کے خیالات اور معلومات وسیع ہوں اور مشاہدہ کرنے کی عادت اس کے مزاج کا حصہ ہو۔ قوتِ امتیاز کسی بھی صحافی کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اہم اور غیر اہم خبروں میں فرق کر سکے۔ ایک سست اور کاہل شخص اس محنت اور وقت طلب مشغلے میں بری طرح ناکام رہے گا۔ عوام اخبارات سے عام معلومات حاصل کرنے کا ایک آسان ذریعہ سمجھتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اخبار کے ادارہ تحریر میں کام کرنے والے افراد کافی تعلیم یافتہ، مہذب، متمدن اور صحیح اعتدال سے کام لینے کے عادی ہوں۔ اگر کسی صحافی کی اسکول یا کالج کی تعلیم بہت زیادہ نہ رہی ہو، تب بھی اسے اپنے وسیع مطالعے سے اپنا علمی معیار بلند کرنا چاہیے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں جہاں معلومات کا سیلاب ہے، ایک صحافی کی ذہنی اہلیت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ وہ کیسے حقائق کو پرکھتا ہے، جعلی خبروں (fake news) میں تمیز کرتا ہے اور درست معلومات کو قارئین تک پہنچاتا ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں جہاں خبریں اکثر ٹیلی پرنٹر، تار برق، اعلامیوں اور دیگر ذرائع سے انگریزی زبان میں موصول ہوتی ہیں، اس لیے صحافی کا انگریزی زبان سے گہری واقفیت رکھنا بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحریر کی زبان اور قواعد پر عبور حاصل ہونا لازمی ہے تاکہ خبر کی ترسیل میں کوئی ابہام نہ رہے۔ وقت ضرورت کتاب اور قواعد کا مطالعہ کرنا اور لغت یا ڈکشنری کا استعمال کرنا ایک اچھی عادت ہے۔ نوم چومسکی، جو ایک نامور امریکی ماہر لسانیات اور سیاسی نقاد ہیں، نے میڈیا کی طاقت پر بات کرتے ہوئے ہمیشہ ’’معلومات کے حصول اور تجزیے کی صلاحیت ‘‘کو ایک صحافی کی بنیادی اہلیت قرار دیا جو ذہنی استعداد کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق 70فیصد کامیاب صحافی مستقل مطالعے اور سیکھنے کو اپنی کامیابی کی کلید قرار دیتے ہیں اور یہ صرف تعلیم تک محدود نہیں بلکہ مسلسل سیکھنے کے عمل اور معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے کی صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔

جسمانی اور ذہنی اہلیتوں کے علاوہ صحافی میں اخلاقی معیار کا ہونا لازمی ہے۔ بنیادی طور پر ایک اخبار نویس کو ملنسار ہونا چاہیے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد سے اس کا مسلسل رابطہ پڑتا ہے۔ مختلف لوگوں سے میل جول اور اشتراک عمل سے صحافی کو نئی نئی معلومات بآسانی مل سکتی ہیں۔ دوستانہ ماحول میں صحافی زیادہ سہولت سے کام کر سکتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے فلسفیوں کا یہ نظریہ تھا کہ انسانی معاشرت کی بنیاد ایک معاہدے پر پڑی اور اسی طرح ایک مجلسی، بے تکلف اور ملنسار انسان زیادہ کامیاب صحافی بن سکتا ہے۔ جو شخص انسان دوستی کے جذبات سے عاری ہے، وہ صحافت کے میدان میں بری طرح ناکام ہو سکتا ہے۔ بنی نوع انسان سے ہمدردی کے جذبات صحافی میں ہونا ضروری ہیں۔ انسان دوست اخبار نویس زیادہ سہولت سے خبریں جمع کر سکتا ہے۔ تنہائی پسند، الگ تھلگ رہنے والا، صرف خواص سے رابطے کا خواہشمند، تعلیم یافتہ گوشہ نشین، ناشائستہ، غیر مہذب، تحکم پسند، متکبر، کٹر نظریاتی اور اپنی قابلیت پر گھمنڈ کرنے والا شخص صحافتی دنیا کے لیے ناکارہ اور نااہل ثابت ہوتا ہے۔ صحافت کی دنیا مسابقت کے ساتھ ساتھ میزان عمل میں ایک دوسرے کے احترام پر زور دیتی ہے۔ صحافی ایک افسانہ نگار نہیں ہے جو تصور کی مدد سے تخیلاتی تانے بانے بن لیتا ہے۔ صحافی ایک بامقصد قلم کار ہے جو افکار و حوادث کو قلم بند کرتا ہے۔ یعنی صحافی ہم عصر مؤرخ ہے اور اپنی خدمت سے آنے والی نسلوں کے لیے ایک معتبر دستاویز تحریر کر رہا ہے۔ ایسی عظیم ذمہ داری صرف وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو معقول، مہذب، ملنسار اور منفرد ہو۔ اس کام کے لیے صحافی کو لوگوں میں بسنا ہوتا ہے، ان کی دلچسپیوں سے دل چسپی لینی ہوتی ہے اور ان کی خدمات دور کرنے کے لیے تعلقات استوار کرنے ہوتے ہیں۔ خبر جمع کرنے کے لیے انسان کا انسان سے ہم کلام ہونا بہت ضروری ہے۔

خبریں آسمان سے نہیں آتیں اور نہ ہی خودکار مشینوں سے بنتی ہیںبلکہ خبروں کو جمع کرنے کے لیے انسانی تعاون ضروری ہے۔ دفتر میں کام کرنے والے صحافیوں کو بھی اپنے ساتھیوں سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے سے گفتگو کے بغیر کام آگے نہیں بڑھتا۔ لہٰذا، صحافت کے ہر شعبے میں دوستانہ رویہ کامیابی کی کنجی ہے۔ تنہائی پسند انسانوں سے صحافت ناممکن ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہر کسی کا کسی دوسرے پر انحصار ہے۔ باہمی رفاقت، مفاہمت، عملی تعاون اور خوش خلقی سے صحافتی ذمہ داریوں میں عمدگی پیدا ہوتی ہے۔ صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کہنے سے زیادہ سننے کا عادی ہو، بے تکی باتوں سے پرہیز کرے اور گپ شپ میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ اسے دیگر افراد کے احساسات اور جذبات کا لحاظ کرنا چاہیے اور ہر کسی کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق دینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص کسی معاملے پر اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرے تو اسے گوارا کرے۔ خواہ وہ رائے صحافی کو پسند ہو یا نہ ہو، اس کا فرض ہے کہ رپورٹ لکھتے وقت یا تدوین کرتے وقت اپنی ناپسندی کو بالائے طاق رکھ کر اپنی صحافتی ذمہ داری سنبھالے۔ صحافتی اخلاقیات کا یہ تقاضا ہے کہ وہ غیر جانبداری برقرار رکھے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا، ’’صحافت کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا نہیں بلکہ عوامی خدمت کرنا ہے‘‘ جو صحافی کی اخلاقی ذمہ داری کو نمایاں کرتا ہے۔ پریس ایمرجنسی فنڈ (PEC) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کو اخلاقی چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی اخلاقی جرأت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

ظاہری خوبیوں کے علاوہ، صحافی میں کئی باطنی محاسن کا ہونا بھی ضروری ہے۔ صحافی کا ضمیر پاک رہے، اچھے برے کی اخلاقی تمیز ہو اور اس کی آگاہی اور احساس ہمیشہ بیدار رہے۔ صحافت میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے محرومی اور ناکامی میں بھی مسکراتے رہنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے، کیونکہ کبھی کبھی محنت کے باوجود کسی نہ کسی وجہ سے کام رائیگاں ہو جاتا ہے۔ ناگوار موقع پر ہمت سے کام لینا چاہیے اور ان سب کے لیے اخلاقی جرات کی ضرورت ہوتی ہے جو صحافی میں بتدریج عمدہ ہونی چاہیے۔ ناکامیوں کے زینے پار کرنے کے بعد ہی کامیابی کی منزل سامنے آتی ہے۔ خود اعتمادی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، کیونکہ ثابت قدمی کے بعد ہی کامیابی ملتی ہے۔ صحافی کو نہ صرف تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کا بھی، ایسے میں اس کا مضبوط اخلاقی کردار ہی اسے ڈٹے رہنے میں مدد دیتا ہے۔
ایک خوش اخلاق اخبار نویس کو ہر جگہ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ایک کامیاب اخبار نویس کو عظیم قوت برداشت، کوہ پیما کی ہمت اور صبر ایوب کا حامل ہونا چاہیے۔ اس میں پولیس کی اختیار پسندی، وکیل کی حاضر دماغی، جج کی غیر جانبداری اداکار کی تغیر پذیری، ناول نگار کی قوت تخیل، جاسوس کی باریک بینی، فلسفی کا ضبط، ماہر نفسیات کی ہمدردی اور ان سب سے بڑھ کر ایک درد مند انسان کی رواداری، خیر خواہی اور مروت کا حسین امتزاج ہونا چاہیے۔ یہ تمام خصوصیات ایک صحافی کو معاشرے میں نہ صرف ایک مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہیں بلکہ اسے ایک قابل احترام اور بااثر شخصیت بھی بناتی ہیں۔ صحافت کا یہ پیشہ آج کے دور میں پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، جہاں سچ کو جھوٹ سے الگ کرنا اور عوامی مفاد کی خبروں کو سامنے لانا ایک صحافی کا بنیادی فریضہ ہے۔ ایک کامیاب صحافی صرف ایک خبر نگار نہیں بلکہ ایک معاشرتی رہنما، ایک تحقیق کار، اور ایک ذمہ دار شہری ہوتا ہے جو اپنے قلم کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی اہلیت رکھتا ہے۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
سرینگر میں کانگریس کی عظیم الشان عید ملن تقریب منعقد
تازہ ترین
ریاستی حیثیت کی بحالی عوامی خدمات کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے گی: ڈاکٹر فاروق عبداللہ
تازہ ترین
حج 2025 کا پہلا قافلہ کل سرینگر پہنچے گا، دوسرا 26 جون کو متوقع:حج کمیٹی
تازہ ترین
ملک میں کورونا انفیکشن سے 11 مریضوں کی موت، کل ایکٹو کیسز کم ہو کر 7264 رہ گئے
برصغیر

Related

طب تحقیق اور سائنسکالم

فوٹو گرافی اورمسلم معاشرے! | خوف، فہم اور خیر مقدم معلومات

June 15, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

ذہنی تنائو آنتوں کی بیماریوں کا جنم داتا

June 15, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

کائنات کا پھیلاؤ کیسے ہورہا ہے؟! | سائنسدان اس رازکا اندازہ لگانے سے قاصر نظامِ قدرت

June 15, 2025
کالممضامین

ایران پر اسرائیل کا غیر متوقع حملہ ندائے حق

June 15, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?