ڈاکٹر فلک فیروز
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے (سید صادق حسین )
فیر زون یا خوف کے علاقے سے منسوب وہ تمام تر حالات ،واقعات اور اندیشے ہیں جن کا سامنا ایک انسان کو اس وقت کرنا پڑتا ہے جب وہ سہل پسندی کے ماحول سے نکلنے کی سعی کرتا ہے، فیر زون میں جو بھی حالات ،واقعات پیش اتے ہیں ان کی تفصیل مختلف مفکرین یا ماہرین علم اعصاب،علم نفسیات و موٹیویشنل مقررین نے پیش کی ہیں ان میں چند خصوصی نکات یوں درج ہیں۔
۱۔ فیر زون ایک ایسی نفسیاتی حالت کا نام ہے جو ایک آدمی کو نامعلوم اوہامات ،خدشات ،حادثات کی طرف لے جاتا ہے جن کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسط نہیں ہوتا لیکن ان کا وجود یا حجم ایک پہاڑ کی مانند معلوم ہوتا ہے ۔ ان سے ٹکرانے یا انھیں عبور کرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ بندہ اوہامات کی دنیا میں قید تھا اور جتنے بھی خدشے حائل تھے ان کو وجود ہی نہیں تھا۔
۲۔اس ناواقف ماحول میں بندہ غیر یقینیت اور غیر آرام دہ صورٹ حال کی کیفیات میں رہتا ہے۔
۳۔ اس بے یقینی کے عالم میں بندہ ناواقف حالات سے ٹکرانے یا ان کا مقابلہ کرنے کے معاملے میں الجھ جاتا ہے۔
۴۔نامعلوم ماحول،حالت سے دوچار ہونے کے وسوسوں سے منفی جذبات ابھرتے رہتے ہیں اور آدمی کا ولولہ ،شوق کمزور پڑتا ہے ۔
۵۔آگے پیش آنے والے حالات کے تئیں بندہ مغلوب ہونے اور نہ ہونے کے درمیان جوجھتا رہتا ہے ۔
۶۔فیر زون خوف،شک،تشویش،ذہنی پراگندگی ،محشر خیالی کا دور کہلاتا ہے۔
۷۔نمو ،بالیدگی کی جانب قدم بڑھانے کے اس حالت سے گزر جانا از حد ضروری ہے کیونکہ اس مرحلے میں نئی حرارت جوش،توانائی ملتی ہے جس کی وجہ سے نئے ہنر اور علوم سے بندہ متعارف ہو کر نئی تبدیلی کا کھلے دل سے ارادہ کرتا ہے۔
۸۔ خوف کے دور سے گزرتے ہوے شخص کو مدد ،ہمدردی،سپورٹ کی ضرورت ازحد محسوس ہوجاتی ہے، اس لیے ہمدرد دوستوں ،اساتذہ اپنے رہبران سے مشورہ لینا چاہے۔۹۔ تحقیقی اوراق میں ،کتابوں میں یہ بات وضاحت کے ساتھ درج کی گئ ہے کہ یہ ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جسکی عمر زیادہ طویل نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ دور عارضی و عبوری ہوتا ہے وقت اور طاقت ور کوششوں کے ساتھ اس مرحلے سے باہر نکلا جاسکتا ہے اور نکلنے کے بعد نئےمرحلے میں داخل ہوتا ہے جس سے لرنگ دور کہا جاتا ہے۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے ( مرزا عظیم بیگ عظیم )
لرنگ زون کو عمومی طور پر سیکھنے کا دور کہا جاتا ہے جس میں ایک انسان نئی چیزوں کو سیکھنا چاہتا ہے اس زون میں مشکلات کو قبول کرنا پڑتا ہے ،نئے انجانے راستوں پر سفر کرنے پر آمادہ ہونا پڑتا ہے تب جاکر سیکھنے کا عمل آسان ہوجاتا ہے۔ لرنگ زون کی عام لفظوں میں یوں تعریف پیش کی جاتی ہے ۔
” Learning zones can mean two things the zone in a physical space where learning is accomplished or the emotional and mental space where people step out of their “comfort zones
سیکھنے کے عمل سے مراد ایک ایسی جسمانی و ذہنی کیفیت ہے جس میں افراد اپنی سہل مندی کو چھوڑنے کی سعی کرنا شروع کرتے ہیں اور نئی چیزوں کو سیکھنے کے کوشش کے ساتھ ساتھ اپنی گروتھ ،بالیدگی کو بڑھانا چاہتے ہیں ۔یہاں نئی کھوج شروع ہوجاتی ہے ،نئے خیالات جنم لیتے ہیں ،یہاں اپنی معلومات ،علم ،موجودہ انفارمیشن کو للکارنا پہلا قدم ہوتا ہے با لخصوص نوجوانوں کے لیے جو کہ تن آسانی کے شکار ہوجاتے ہیں علامہ اقبال ان میں حرارت اجاگر کرنا چاہتے ہیں ۔اپنی نظم جوانوں کے نام میں لکھتے ہیں۔
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
درج ذیل نکات کے ذریعے سے لرنگ زون کے پورے عمل کو سمجھا جاسکتا ہے۔
(۱) لرنگ زون سیکھنے کا وہ عمل ہے جہاں خود سے خود کو والوں کے کٹھہرے میں کھڑا کرنا ہے اور نئے سوالات قایم کرنے ہیں۔(۲)نئے قایم کئے گئے سوالات کا جواب بھی خود ہی تلاشنے کی ضرورت ہے اپنے حصار،ماحول،خیال،ترقی،علم ،انفارمیشن کے دائرے میں رہ کر۔(۳) اس زون میں تجسس کا قایم رہنا از حد ضروری ہے۔(۴) اس مرحلے میں کشیدگی اعتدال پسندی میں رہتی ہے۔(۵) اس مرحلے کو طے کرنے کے لئے حمایت اور سہاروں کی ضرورت درپیش رہتی ہے ۔(۶) لرنگ زون انسان کو نئے ہنر بخش دیتا ہے۔ (۷) یہ ایک ایسا مرحلہ مانا جاتا ہے جہاں کمفورٹ زون اور لرنگ زون کے درمیان مسلسل آپسی تصادم ملتا ہے۔(۸) خوف و ہراس قدم قدم پر روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ (۹) اس عمل میں نئے خیالات ،تجربات اور نقطہ نظر کو کھلے دل سے قبول کیا جاتا ہے۔(۱۰)یہ انتہائی صبر و استقامت کا دور کہلاتا ہے جس میں ہر قدم پر نئے چلینجوں کا سامنا رہتا ہے۔(۱۱) ماہرین نفسیات ،علم اعصاب پر کام کرنے والے لوگوں کی رائے یہ ہے ان تمام ،خدشات،اوہمات اورخیالات کو تنقیدی نیز تجزیاتی پیرایے کے اندر خاکہ بند کرکے آنے والے خطروں کے لئے میدان تیار کرناانسب ہے۔
جب ایک شخص اس مرحلے میں جاتا ہے تو یقینی طور پر وہ نئی دنیا سے متعارف ہوجاتا ہے اور وہ خود کو ایک نئی توانائی بھرے ماحول میں پاکر مختلف نت نئے تجربے حاصل کرپاتا جو اس کو ایک نئے زون میں داخل کرتے ہیں جس کو گروتھ زون یا ترقی کے دربار کا ایک قصہ گو بن جاتا، جس کو نمو کا دور یا ترقی کا علاقہ کہا جاتا ہے۔اس دور میں سہل اندازی قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہے اور انسان اب ماضی کے دھندلکوں سے باہر نکل کر حال کو تعمیر کرکے مستقبل کا راستہ ہموار کرتا ہے ۔ ( مضمون جاری ہے)
رابطہ۔8825001337.
[email protected]>