عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جنوبی کشمیر میں واقع مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں ٹھیک ایک ماہ قبل ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے سیاحوں کی بھیڑ نقطہ عروج پر تھی لیکن آج قدرتی خوبصورتی و رعنائی سے مالا مال یہ مقام ویرانی کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔
ٹھیک ایک ماہ قبل اسی تاریخ کو یعنی 22 اپریل کو اس سیاحتی مقام کی تقدیر یکسر بدل گئی جب 3 سے 4 دہشت گردوں پر مشتمل ایک گروپ نے بیسرن وادی میں 25 بے گناہ سیاحوں اور ایک مقامی شخص کا قتل عام کر دیا۔
اس بہیمانہ واقعے سے پیدا شدہ دہشت کے بعد سیاحوں نے پہلگام کی سیر کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی جہاں سال بھر سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
آج پہلگام میں مٹھی بھر سیاحوں کو ہی گھونتے پھرتے دیکھا جا سکتا ہے، ہوٹل خالی ہیں اور دکانوں پر کوئی خریدار نظر نہیں آرہا ہے اور بیسرن وادی اب سیاحوں کے لئے ممنوع ہے۔
جموں و کشمیر کے محکمہ سیاحت کے مطابق پہلگام میں 22 اپریل سے پہلے روزانہ تقریباً 10 ہزار سیاح آتے تھے اور آج یہ تعداد گھٹ کر 30 سے بھی کم رہ گئی ہے۔
اسی طرح اس مقام میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 13 سو روزانہ سے کم ہو کر محض 150 رہ چکی ہے۔
پہلگام بیوپار منڈل، جو ایک مقامی سطح کی ٹریڈرز باڈی ہے، کے نائب صدر زبیر احمد کا کہنا ہے: ‘ہم نے اس سے قبل ایسا بدترین بحران کبھی نہیں دیکھا ہے’۔
موجودہ صورتحال کو اپنی زندگی کا ‘تاریک ترین دور’ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ‘اس علاقے میں 4 سو کے قریب دکاندار ہیں اور بیشتر دکانداروں کو اپنے ملازمین کو فارغ کرنا پڑا’۔
چند سیاح جنہوں نے یہاں آنے کی ہمت کی ہے وہ مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ حکام نے پہلگام کے تمام باغات میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
اڑیسہ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح، جو یہاں اپنے اہلخانہ کے ساتھ آیا تھا، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نے کہا: ‘پارکس کی بندش سے اداسی میں اضافہ ہوجاتا ہے’۔
انہوں نے کہا: ‘اس سے ہمیں لگاتار 22 اپریل کا سانحہ یاد آتا ہے، ہم بھی یہاں زیادہ دیر تک رکنا نہیں چاہتے ہیں’۔
پہلگام میں سب سے زیادہ متاثر ہونا والا طقبہ ان مقامی گھوڑے بانوں کا ہے جو سیاحوں کو گھوڑے پر بٹھا کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔
ایک گھوڑے بان نے کہا: ‘میں یہاں روزانہ لگ بھگ 4 ہزار روپیے کماتا تھا لیکن جب سے حملہ ہوا ہے تب سے ایک پیسہ بھی نہیں کما سکا’۔
انہوں نے کہا: ‘ہم اب ایک مشکل صورتحال میں پھنس گئے ہیں، ہمیں اکثر پوچھ تاچھ کے لئے تھانے پر بلایا جاتا ہے، ہمارا قصور کیا ہے’۔
ان کا کہنا ہے: ‘2 ہزار سے زیادہ گھوڑے بان دہشت گردی کے حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے اپنی روزی روٹی کے لیے محو جد وجہد ہیں’۔
زبیر کا کہنا ہے کہ ‘یہاں سیاحتی سیزن لگ بھگ ختم ہوگیا ہے’۔
انہوں نے کہا: ‘تاہم ہمیں شری امرناتھ جی یاترا سے کچھ امیدیں ہیں، اگرچہ یاترا سے سیاحت کو براہ راست فائدہ نہیں پہنچتا ہے، لیکن اس سے سیاحوں میں وادی میں واپس آنے کے لیے اعتماد پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے’۔
امسال سالانہ شری امرناتھ جی یاترا 3 جولائی سے شروع ہونے والی ہے۔
گرچہ اس یاترا کا راستہ پہلگام سے گزرتا ہے تاہم اس کی محدود اور اعلیٰ حفاظتی نوعیت کی وجہ سے مقامی سیاحت کو ہونے والا معاشی فائدہ تاریخی طور پر محدود رہتا ہے۔
تاہم، فی الوقت، ایک وقت سیاحتی سرگرمیوں سے متحرک رہنے والا پہلگام خوف، غیر یقینی صورتحال اور معاشی مایوسی سے دوچار ہے۔
پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والا حملہ، جس کی ذمہ داری لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم ٹی آر ایف نے قبل کی، نے ہندوستان اور پاکستان کو جنگ کی دہلیز پر لے آیا۔
تفتیش کاروں نے تین حملہ آوروں کی شناخت اننت ناگ کے عادل حسین ٹھوکر اور دو پاکستانی شہری علی بھائی عرف طلحہ بھائی اور ہاشم موسیٰ عرف سلیمان کے طور پر کی۔
اس حملے کا بدلہ لینے کے لئے ہندوستان نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات کو ‘آپریشن سندور’ لانچ کرکے پاکستان اور پاکستان زیر قبضہ کشمیر میں 9 بڑے دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنا دیا۔
پاکستان نے جوابی کارروائی کی اور 10 مئی کو ہونے والی جنگ بندی کے اعلان سے قبل 4 دن تک سرحد پار سے شدید فوجی کارروائیاں انجام دیں۔
دریں اثنا پہلگام حملہ آور ہنوز فرار ہیں۔ سکیورٹی فورسز کا خیال ہے کہ تینوں ابھی تک پہلگام کے آس پاس کے جنگلاتی پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کی تلاش جاری ہے۔
سکیورٹی حکام کو شبہ ہے کہ ڈیڑھ سال میں پونچھ کے ڈیرہ کی گلی، گلمرگ کے بوٹا پتری اور گاندربل میں گنگنگ یر میں کم از کم تین دیگر حملوں کے پیچھے اسی گروپ کا ہاتھ تھا۔
ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے کہا: ‘ہم انہیں حاصل کرکے ہی دم لیں گے’۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ علاقے میں بڑے پیمانے پر کومبنگ آپریشنز جاری ہیں۔
بہیمانہ حملے کے ایک ماہ بعد بھی پہلگام سیاحوں کا منتظر
