محمد تسکین
بانہال // اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق صوبہ صوبہ جموں کے پہاڑی اضلاع خصوصا وادی چناب کے علاقوں میں قائم سرکاری سکولوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے اور اساتذہ اور سکول عمارتوں کی کمی کا مسئلہ جہاں برسوں سے جوں کی توں صورتحال سے دوچار ہے وہیں عوامی سرکار کے وجود میں آنے کے بعد بھی سرکاری سکولوں میں جاری نظام تعلیم کو بہتر کرنے کیلئے اب تک نہ کوئی حکمت عملی مرتب کی گئی اور ناہی پہاڑی علاقوں میں قائم سرکاری سکولوں کے زمینی سطح کے حالات میں کوئی خاص تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔ نیو ایجوکیشن پالیسی کے تحت پچھلے دوبرسوں سے محکمہ تعلیم کے سماگرا شکھشا کی طرف سے مختلف سرکاری سکولوں میں تین سال سے پانچ سال کی عمر تک کے چھوٹے بچوں کے لئے کنڈر گارٹن کی کلاسیں شروع کی گئی ہیں اور ان بچوں کی دیکھ ریکھ اور بچوں کی صاف صفائی کیلئے مددگار آیاز کو تعینات کیا گیا تھا ۔ صوبہ جموں کے باقی سینکڑوں کنڈر گارٹن مراکز کی طرح ضلع رام بن کے مختلف پرائمری ، مڈل اور ہائی سکولوں کے علاوہ ہائیر سینکڈریوں میں قائم کنڈرگارٹن کی کل تعداد 238ہے لیکن اس سال کے تعلیمی سیشن میں تین مہینے کا طویل عرصہ گزرجانے کے باووجود بھی سماگرا شکھشا جموں کی طرف سے صوبہ جموں کے مختلف سکولوں میں قائم کنڈر گارٹن میں داخل بچوں کی دیکھ بال کیلئے آیاز کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی ہے جس کی وجہ سے نرسری ، ایل کے جی اور یو کے جی میں داخل بچوں کی تین اضافی جماعتوں کی ذمہ داری سٹاف کی کمی سے دوچار متعلقہ سکولوں کے کم قلیل سٹاف ممبران کے کندھوں پر ہی پر ہی آن پڑی ہے۔ کنڈر گارٹن کے اس اضافی بوجھ نے پہلے ہی سے سٹاف کی کمی سے دوچار متعلقہ سرکاری تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے عمل کومزید اثر انداز کر دیا ہے اور سینکڑوں غریب بچوں سے بھرے پڑے ایسے تعلیمی ادارں میں دو اور تین ٹیچروں کی جان پر بن آئی ہے اور سکولوں کا دیگر سلسلہ متاثر ہو رہا ہے ۔ اس صورتحال نے صوبہ جموں کے تمام ایسے سکولوں کو اثر انداز کر دیا ہے جہاں سٹاف کی کمی ہے اور کنڈر گارٹن کی کلاسیں شروع کی گئی ہیں لیکن اس سال ہیلپروں کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی ہے اور آیاز کی غیر موجودگی میں یہ بچے ٹیچروں کے ذمہ ہیں ۔کئی والدین اور محکمہ تعلیم سے جڑے تعلیمی ماہرین نے کشمیر عظمی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ لاکھوں روپئے کے سامان کی خرید کے بعد کنڈر گارٹن کی شروعات سرکار کا ایک اچھا قدم تھا لیکن پچھلے سال نکال باہر کی گئی آیا ہیلپروں کی تقریوں کا عمل شروع کرنے میں اس سال کی جارہی تاخیر کی وجہ سے کنڈر گارٹن کا شعبہ سکولوں پر بوجھ بن گیا ہے اور سکول ٹیچروں کو ان چھوٹے اور نافہم بچوں کی دیکھ بال کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو بنیادی چیزیں سکھانے ، کھیل کھلونوں اور ایل ای ڈی پر یوٹیب سے رائمز وغیرہ کے زریعے ارلی چائلڈ کئیر ایجوکیشن سے متعارف کرایا جا رہا ہے اور چھ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں داخلہ لیکر ان بچوں کو اُس اَن دیکھے نصاب سے سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے پہلے ان کو واسطہ نہیں پڑا تھا ۔ انہوں نے مانگ کی کہ بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی طرف سے کنڈر گارٹن کیلئے کوئی نصاب تیار کیا جانا چاہئے تاکہ پہلی جماعت میں داخلہ کے وقت یہ بچے بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی کتابوں کے علمی بوجھ اور فہم کو برداشت کر سکیں اور اس کیلئے پہلے ہی انگریزی ، اردو اور ریاضی کی مشق کیلئے نصاب کا ہونا ضروری ہے ۔یہ تمام معاملہ جب چیف ایجوکیشن آفیسر رام بن بکرم سنگھ کی نوٹس میں لیا گیا تو انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کل یعنی منگل 20 مئی کی شام ہی پروجیکٹ ڈائریکٹر سماگرا جموں و کشمیر کی طرف سے محکمہ تعلیم میں کام کرنے والی مددگار آیاز کو اس سیشن میں بھی تعینات کرنے کیلئے ایک حکم جاری کیا گیا ہے اور وہ آیاز کی مدت بڑھانے کے اس حکمنامے کو زونل ایجوکیشن افسروں کو مزید کاروائی کیلئے روانہ کر رہے ہیں تاکہ ضروری کاروائی کے بعد آیازکی فوری تقرری کو عمل میں لایا جا سکے ۔