مولانا پیر شبیراحمد
جوانی ایک عظیم نعمت ہے اور یہ مقام اس لئے عطا کیا گیا ہے کیونکہ نو جوان وہ صلاحیت رکھتا ہے جو بزرگ میں نہیں ہوتی ہے۔ جوانی کے قیمتی لمحات انمول ہوتے ہیں، قوت و توانائی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ، اس لئے کامیابی کے کسی بھی امید وار کی یہ ذمہ داری ہے کہ جوانی اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارے اور جوانی کے شب و روز عبادت الٰہی سے بھر پور رکھے، قرب الٰہی کی جستجو میں رہے، ہمہ وقت نفسانی اورشیطانی خواہشات کے مقابلے کیلئے جدو جہد کرے، آپؐ کا فرمان ہے: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو، آپ نے ان پانچ چیزوں میں بڑھاپے سے پہلے جوانی کا بھی ذکر فرمایا۔ نوجوانوں کی بہتری میں امت کی بہتری ہے، لہٰذا یہ امت اس وقت تک خوشحال ، معزز ،کامیاب اور بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو سکتی جب تک اس امت کے نو جوان عہد اول کے جوانوں کی طرح نہ بن جائیں ، ان کی دینی وابستگی اعلیٰ ترین ، زندگی بھی خوشحال اور کسی بھی مفید اور نیک کام کیلئے جوش و جذ بہ بھی دیدنی ہوتا تھا۔ جوانی میں تو بہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ اور طریق رہا ہے۔ ہم اگر اپنے زمانے پر نگاہ ڈالیں تو ہر نظم تحریک، جماعت اور فوج میں نو جوانوںکا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے نوجوان خودشناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں ، اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کریں اور بڑے قومی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرنے کی کوشش کریں اور اپنے سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کر کےایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں ،جس میں امن سلامتی ، برداشت رواداری اور اخوت ، سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں ۔ لیکن آج کا نوجوان یہ حقیقت تسلیم کرنےکے لیے تیار نہیں ہے کہ شریعت نے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اس کا وجود، انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی امانت ہے، لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا، اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مطابق استعمال کرنا ، اس سے وہ کام لینا جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے اوراسے نقصان وزیاں سے بچانا لازم ہے۔ قیامت کے دن اس جوانی کے بارے میں خصوصی سوال کیا جائے گا۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میںسوال نہ کر لیا جائے (۱) عمر کن کاموں میں گنوائی ؟ (۲) جوانی کی توانائی کہاں صرف کی ؟ (۳) مال کہاں سے کمایا ؟ (۴) اور کہاں خرچ کیا؟ (۵)جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا ؟ لیکن آج کے نو جوانوں کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے، اپنے معاشرے پر نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ آج کے مسلم نو جوان کہاں کھڑے ہیں؟ وہ کہاں مصروف ہیں؟ انکے مشاغل کیا ہیں؟ انکے شوق کیا ہیں؟ اسکے معمولات کیا ہے؟ نوجوان منشیات، فحاشی،خرافات جیسے کاموں میں اپنی جوانی، اپنا زور لگارہا ہے اور وہ ان میں ایسا مبتلا ہوا ہے کہ وہ سب کچھ بھول گیا ہے کہ میر اوجود کیا ہے اور میری شناخت کیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ شیطان نو جوانوں کے ساتھ بڑی سخت دشمنی روا رکھتا ہے، اس کے لیے وہ نو جوانوں کو اہل باطل کےقافلے میں شامل کر کے جہنم کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے، لہٰذا مسلم نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد زندگی کو سمجھیں اور اپنی شناخت کو مٹنے نہ دیں۔کیونکہ قوم اس وقت تباہ نہیں ہوتی ہے جب کسی کی موت ہوتی ہے بلکہ قوم اُس وقت تباہ ہوتی ہے جب اس قوم کا نو جوان اپنی شناخت بھول جاتاہے ۔ الغرض نو جوان اپنے آپ پر نظر ڈالے کہ میری ذمہ داری کیا ہے اور میں کسی حد تک اپنی ذمہ داری سے انصاف کر رہا ہوں۔