بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدہ کو 11دن ہوچکے ہیں۔ان گیارہ دنوں کے دوران سرحدیں پُر سکون رہیں اور کہیں بھی آتشی گولہ باری کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ۔کشمیر سے لیکر کٹھوعہ تک ایل اوسی اور بین الاقوامی سرحد پر توپیں خاموش ہوچکی ہیں اور بندوقیں آگ اگلنا بند کرچکی ہیں۔جنگ بندی کا یہ معاہدہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح آیا ہے جس نے سرحدی گولہ باری سے متاثرہ لوگوں کو راحت و فراوانی کاسامان مہیا کیا ہے ۔مدتوں بعد سرحدی آبادی سکون سے اپنے گھروں میںپیر پسار کرسونے لگی ہے اور اب انہیں اس بات کا ڈر نہیں لگا رہتا ہے کہ اچانک کہیں سے کوئی گولہ گر آئے اور ان کی خوشیاں لوٹ لے ۔آج سرحدی علاقوں میں زندگی پٹری پر واپس آنے لگی ہے اوررواں دواں ہونے لگی ہے ۔نہ صرف سرحدی علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہورہی ہیں بلکہ زرعی سرگرمیاں بھی شروع ہوچکی ہیں اور لوگ کسی خوف کے بغیر اپنے کھیتوں میں کام کررہے ہیں جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سرحدی علاقوں کی شادیوں میں شہنائیوں کی بھی واپسی ہوچکی ہے ۔یہ سارے مناظر اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ دل کو خوش کرنے والے ہیں کیونکہ دو ممالک کی کشیدگی کی وجہ سے سرحدی آبادی اب کئی برسوں نے توپ کی رسد بن چکی تھی اور آئے روز کی گولہ باری سے سرحدی آبادی کا جینا دوبھر ہوچکا تھا۔پہلگام حملہ کے بعد 7مئی کو آپریشن سندور کے بعد پیداہوئی ہندوپاک کشیدگی کے نتیجہ میں سرحدوں پر جو تنائو کا عالم شروع ہوچکا تھا ،اُس نے سرحدوںکو عملی طور جنگ کا اکھاڑہ بنادیا تھا ۔دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروںکا استعمال کیاجارہا تھا ۔گولہ باری کی شدت کا یہ عالم تھاکہ اس بار گولے پونچھ شہر ،راجوری شہر ،یہاں تک سرنکوٹ قصبہ میں بھی گرے جو سرحدسے کافی دور ہے ۔اسی طرح کشمیر صوبہ میں کرناہ ،اوڑی اور چوکی بل میںدور دور تک گولوں نے مار کیا ۔اس گولہ باری کے نتیجہ میں نہ صرف پیر پنچال اور کشمیر کے سرحدی علاقوں میں لوگوںکے آشیانے زمین بوس ہوگئے جبکہ جموں کے سرحدی علاقوں میں بھی تباہی کی ایک الم ناک داستان رقم ہوگئی لیکن اس ساری صورتحال کا المناک پہلو یہ تھا کہ اس گولہ باری کے نتیجہ میں انسانی جانوں کا بھی اتلاف ہوا اور بڑی تعداد میں شہری آبادی کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی بھی ہوگئی جو ابھی بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ سرحدوں کی صورتحال قطعی صحیح نہیں تھی۔یہ ایک طرح کی جنگ تھی جو دونوں جانب سے جاری تھی اور دونوں فریق ایک دوسرے کو اس کیلئے مورد الزام ٹھہرا رہے تھے ۔اس اشتعال انگیزی کیلئے کون ذمہ دار تھا،اُس بحث میں پڑے بغیر اس حقیقت سے قطعی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ سرحدوں پرعملی طور دہشت کی حکمرانی تھی اور ستم ظریفی کا عالم یہ تھا کہ اس کشیدگی کا خمیازہ آر پارجموںوکشمیرکی عوام کو ہی بھگتنا پڑرہاتھا اور ایل او سی کے دونوں جانب عام لوگ اس کشیدگی میں توپ کی رسد بن رہے تھے اور یوں اگر کسی کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو وہ کشمیری عوام ہی تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام ہی اس معاہدہ کا سب سے خیر مقدم کرکے دائمی امن کی اپیلیں کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس معاہدہ کا سب سے زیادہ فائدہ ہی آرپار کشمیری عوام کو ہی ملے گا۔گوکہ اب دونوں جانب سے کہاجارہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ پر عملدرآمد جاری ہے اور آنے والے دنوں میں اعتماد سازی کے مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے اور فوجیوں کی سرحدوں سے واپسی کی جائے گی تاہم جس طرح سے کہاجارہا ہے کہ آپریشن سندور کو معطل کیاگیا ہے ،ختم نہیں کیاگیا ہے ،وہ کئی خدشات کو جنم دیتا ہے ۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان پر 7مئی جیسا ایک اور حملہ ہوسکتا ہے ؟۔فوری طور گوکہ اس کا امکان نہیں ہے تاہم بھارت نے واضح کیاہے کہ اگر دہشت گردی کی کوئی اور کارروائی ہوتی ہے تو جواب 7مئی جیسا ہی ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بندی انتہائی نازک ہے اور اس کے قائم رہنے کا انحصار زیادہ تر پاکستان پر ہی ہے تاہم امید کی جانی چاہئے کہ یہ معاہدہ دیر پا ثابت ہوگا اور اس معاہدہ کے طفیل دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک سلسلہ چل پڑے گا جس سے یقینی طور پر اعتماد سازی کی فضاء قائم ہوسکتی ہے جس کے ثمرات دونوں جانب کروڑوں عوام کو یقینی طور پر ملیں گے جو اب برسہا برس سے امن کے متلاشی ہیں ۔