Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

! چھوٹے دُکھ واویلا کرتے ہیں ،بڑے دُکھ خاموش رہتے ہیں ہمدردی و اخلاص سے ایک دوسرے کے دُکھ کم کئے جا سکتےہیں

Towseef
Last updated: May 19, 2025 11:31 pm
Towseef
Share
8 Min Read
SHARE

فہم و فراست

شفیع نقیب

بے حد دکھ ہوتا ہے جب ہم اپنی آنکھوں کے سامنے غربت کے مارے، بیمار و لاچار انسانوں کو ہاتھ پھیلائے، آنکھوں میں آنسو لئے، مدد کی دہائیاں دیتے دیکھتے ہیں۔ غربت، بھوک اور بیماری کسی دروازے پر دستک دے کر نہیں آتیں، مگر جب یہ کسی مفلس کنبے کو آ گھیریں تو ان کے پاس ایک ہی سہارا بچتا ہےدعا اور دوسروں سے امداد کی التجا۔

بازاروں، ہسپتالوں اور سڑک کنارے ایسے مناظر اب اجنبی نہیں رہے۔ ایک ماں بیمار بچے کو گود میں اُٹھائے، ایک باپ کینسر کے مریض کے علاج کے لیے چندہ مانگتایا ایک نوجوان سوشل میڈیا پر عزت و غربت کا توازن کھو بیٹھ کر مدد کی اپیل کرتا ہے۔ دل تڑپ اٹھتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بے ساختہ دل سے آہ نکلتی ہے، ’’یا اللہ! یہ بھی تیرے ہی بندے ہیں۔‘‘

ایک طرف دولت کے انباروں پر بیٹھے لوگ، عیش و عشرت کے ہر زینے پر قدم رکھتے نظر آتے ہیں، دوسری جانب کمزور و نحیف چہرے، جھکے ہوئے بدن، خالی نگاہیں۔ صرف ایک وقت کی روٹی، ایک دوا کی خوراک یا علاج کی اُمید لیے دستِ سوال دراز کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ غریب بھی اسی سرزمین کے باسی نہیں؟ اگر ہیں تو پھر سرکاری شفاخانے ان کے درد کا مکمل علاج کیوں نہیں کرتے؟ اگر ووٹ ان کا ہے تو ریاستی نظام میں ان کا پورا حق کیوں نہیں؟ ایک فلاحی ریاست کا تصور جزوی امداد سے نہیں بلکہ مکمل اعانت سے پورا ہوتا ہے۔

یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب عوام کو خواب دکھا کر حکومتی ایوانوں تک پہنچنے والے سیاست دان پہلی ہی نشست میں اپنے مشاہرے اور مراعات کے لیے رقوم مختص کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی اولین ترجیح عوام کی فلاح نہیں بلکہ ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ بجٹ کے مواقع پر بھی سرمایہ داروں، بیوروکریسی اور الیکشن فنڈ فراہم کرنے والوں کو رعایتیں دی جاتی ہیں، جبکہ سرکاری ملازمتیں اور بینک قرضے مخصوص چہروں میں بانٹے جاتے ہیں۔ دفاتر سے عارضی ملازمین کو مالی بحران کا بہانہ بنا کر نکالا جاتا ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی علاج اور تشخیص کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔

سابقہ اور موجودہ ارکانِ اسمبلی و پارلیمنٹ کے مشاہرے میں اضافہ اس بہانے سے کیا جاتا ہے کہ سیاسی مستقبل غیر یقینی ہے۔حالانکہ کئی ایسے افراد انتخابات ہارنے کے بعد بھی سرکاری خزانے پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے ذاتی مکانات و دفاتر کی تزئین و آرائش پر لاکھوں خرچ ہوتے ہیں، گارڈ سیکورٹی پر الگ خرچہ ہے اور حکمرانوں کے قریبی رشتہ دار بھی ان مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف غریب مریضوں کی فریاد بہرے کانوں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اور ان پر چند سکے پھینک کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’ہم عوامی حکومت ہیں، ہر ممکن امداد فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ حقیقت مگر اس کے برعکس ہے،یہی عوام، یہی بیمار، یہی غریب آج بھی دھکے کھا رہے ہیں، پہلے بھی کھا رہے تھے۔

میں نے یہ سطور ان غریبوں کی بے بسی، ان کے بکھرتے خواب اور ان کی بیماریوں کی سنگینی کو دیکھ کر لکھی ہیں جو کینسر جیسے موذی مرض سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کے لیے نہ سرکاری پناہ ہے، نہ غیرسرکاری سہارا۔ وہی لوگ جو دھوپ میں لمبی قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ دیتے ہیں، آج شفاخانوں کے در پر بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو ان بے آوازوں کی فریاد کو سنے؟ کوئی جو ان کے درد کا درماں بنے؟یہی وقت ہے کہ ہم اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑیں اور ایک سچی فلاحی ریاست کے قیام کی طرف عملی قدم بڑھائیںجہاں دوا کے طلبگاروں کو خیرات نہیں، حق ملے اور انسان کی زندگی، بیماری اور غربت کا مداوا محض ایک خبر یا تصویر نہیں، بلکہ ریاستی فرض بنے۔

اس تناظر میں، ہمیں ان اداروں کی خدمات کو سراہنا چاہیے جو اپنی سطح پر انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ممبئی کا ٹاٹا میموریل ہسپتال، جو کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف کم آمدنی والے مریضوں کے لئے اُمید کی ایک کرن ہے، ان مریضوں کے لیے سہارا بنتا جا رہا ہے جنہیں ریاستی شفاخانوں نے مایوس کیا ہے۔ اسی طرح سکھ کمیونٹی کی طرف سے بھارت کے مختلف شہروں میں قائم کردہ لنگر اور ڈائلسس مراکز اپنی بے لوث خدمت، نظم و ضبط اور انسان دوستی کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔

وادی کشمیر میں بھی بعض ادارے، جیسے کینسر سوسائٹی کشمیر، اَتھ روٹ کشمیر، جے کے یتیم ٹرسٹ، جمیعت اہلحدیث،ہیلپ پئور اور چند مقامی بیت المال کمیٹیاں اپنی بساط کے مطابق یتیموں، ناداروں اور مریضوں کی کفالت کا کام کر رہی ہیں۔ ان کی خلوص بھری رضاکارانہ خدمات قابلِ قدر ہیں اور ہم ان کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں۔تاہم یہ قابلِ توجہ امر ہے کہ ایسی خدمات صرف چند اداروں تک محدود کیوں ہیں؟ کیا دیگر دینی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو بھی اس سمت میں پیش قدمی نہیں کرنی چاہئے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ اجتماعی طور پر ایک منظم اور باوقار امدادی نظام کی بنیاد رکھیں جس سے ہر پسماندہ اور بیمار فرد کو فائدہ پہنچے؟

یہاں یہ بات بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ ریاست میں ’’مسلم اوقاف ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک بڑا اور قدیم ادارہ موجود ہے، جس کی آمدنی کروڑوں میں ہے۔ لیکن افسوس کہ زمینی سطح پر اس ادارے کی کوئی قابلِ ذکر امدادی یا فلاحی کارکردگی دکھائی نہیں دیتی۔ کووِڈ۔19 کی وبا کے دوران جب قوم کو ماسک، سینیٹائزر اور بنیادی طبی سہولیات کی اشد ضرورت تھی، اس ادارے نے دو روپے کا ماسک بھی فراہم نہ کیا۔ وادی کے کسی دور افتادہ علاقے میں بنیادی صحت مرکز یا بلڈ بینک کا قیام تو دور کی بات، یہ ادارہ شاید اس پہلو پر غور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں رہا۔بطور ایک بڑا، صاحبِ وسائل ادارہ، اوقاف ٹرسٹ میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ہر بلاک اور تحصیل میں طبی یونٹ، کلینیکل لیبارٹریز، موبائل ایمبولنس سروس اور بنیادی ادویات کی فراہمی کو یقینی بنا سکےاور انہیں اس کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت بھی نہیں۔ لیکن افسوس! یہ ادارہ آج بھی بے عملی اور غفلت کا شکار ہے۔ریاست کے باشعور شہریوں کی یہ پُرخلوص اُمید ہے کہ اوقاف ٹرسٹ اور دیگر بڑے ادارے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اُن لوگوں کے لیے عملی اقدامات کریں گے جو در در کی ٹھوکریںکھا رہے ہیں۔ یہ وقت محض دعووں کا نہیں بلکہ حقیقی، منظم اور پائیدار فلاحی اقدامات کا ہے۔
رابطہ۔ 9622555263
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
سری نگر میں بدنام زمانہ منشیات فروش گرفتار، ممنوعہ مواد بر آمد:پولیس
تازہ ترین
جنگ کسی مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی آخری آپشن: محبوبہ مفتی
تازہ ترین
ایل جی منوج سنہا کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی سیکیورٹی اجلاس
تازہ ترین
عمرعبداللہ نے گاندربل میں واٹر سپلائی اسکیم کا افتتاح کیا
تازہ ترین

Related

تعلیم و ثقافتکالم

اخلاقیات اور کردار سازی کی تعلیمات فکر انگیز

May 19, 2025
تعلیم و ثقافتکالم

اُردو کو بنیادی سطح پر کیسے سکھایا جائے؟ حروف شناسی

May 19, 2025
تعلیم و ثقافتکالم

مصنوعی ذہانت کا اثر | سیکھنے، سوچنے اور سکھانے کا نیا انداز

May 19, 2025
تعلیم و ثقافتکالم

طلاب خود کو مستقبل کی ضروریات کے مطابق تیار کریں

May 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?