مختار احمد قریشی
شبنم کے قطرے درختوں کے پتوں پر تھر تھرا رہے تھے۔ اندھیرے میں چھپی ہوئی گلیوں کی دیواریں جیسے کوئی راز چھپا رہی ہوں۔ مہرالنساء کے پاؤں میں پرانی چپلوں کی چاپ سنسان گلی میں گونج رہی تھی۔ رات کے اس پہر میں وہ اپنے آپ سے بھی چھپ رہی تھی، اپنے ماضی کی تلخیوں سے، اپنے حال کی بے بسی سے۔
اس کے لباس پر کئی پیوند لگے تھے، جیسے زندگی نے بھی اس کے خوابوں پر پیوند لگا دیئے ہوں۔ گلی کے موڑ پر ایک چوکیدار لالٹین لئے کھڑا تھا، اس کی آنکھوں میں نیند تھی اور ہونٹوں پر سگریٹ کا دھواں۔ مہرالنساء نے سر جھکا لیا، جیسے اس کے بدن پر چپکی غربت کو کسی نے دیکھ لیا ہو۔
گھر پہنچتے ہی اس نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ چھوٹے سے کمرے میں کھڑکی سے چاندنی کی ایک باریک لکیر اندر آ رہی تھی۔ اس کے بیٹے علی نے مٹی کے فرش پر پرانی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ وہ بے خبر سو رہا تھا، جیسے دنیا کی کسی فکر نے ابھی اس کے دل کو چھوا نہ ہو۔
مہرالنساء نے اپنے بیٹے کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ٹھنڈا پسینہ تھا۔ غربت کی راتیں ہمیشہ لمبی ہوتی ہیں لیکن ماں کی محبت ہر اندھیرے میں روشنی کا ایک چراغ جلا دیتی ہے۔
صبح جب علی نے آنکھ کھولی تو مہرالنساء نے اسے ایک روٹی اور پانی کا پیالہ دیا۔ علی کی معصوم آنکھوں میں سوال تھا: “ماں، آج اسکول کیوں نہیں جاؤں گا؟”
مہرالنساء نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا، “آج چھٹی ہے، بیٹا۔”
علی کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر آئی اور وہ باہر کھیلنے دوڑ گیا۔ مہرالنساء نے آنکھوں میں آئے آنسو پونچھ ڈالے۔ دراصل، علی کی اسکول کی فیس باقی تھی اور استاد نے صاف کہا تھا کہ جب تک فیس ادا نہیں ہوگی، علی کو کلاس میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا۔
مہرالنساء کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ اس نے اپنی پرانی چادر کو دیکھا، جو شاید اب صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا رہ گئی تھی۔ وہ سوچنے لگی، “کاش، غربت بھی چادر کی طرح بیچ سکتی۔”
گھر کے کونے میں ایک چھوٹی سی صندوقچی رکھی تھی، جس میں چند پرانے زیورات اور علی کے باپ کی یادیں دفن تھیں۔ اس نے صندوقچی کھولی، ایک ٹوٹا ہوا کنگن اور ایک پرانی انگوٹھی نکالی۔ “یہی بچا ہے، یہی بیچنا ہوگا۔”
بازار کی بھیڑ میں وہ ایک سونے کے زیورات کی دکان پر رکی۔ دکاندار نے اوپر سے نیچے تک اسے دیکھا، جیسے وہ زیور نہیں، خود کو بیچنے آئی ہو۔ “یہ تو بہت پرانا ہے، اس کا کچھ خاص دام نہیں ملے گا۔”
“کتنا دے سکتے ہو؟” مہرالنساء نے سر جھکا کر پوچھا۔
“دو سو روپے۔”
دو سو روپے! مہرالنساء کے دل میں جیسے چھریاں چل گئیں۔ علی کی فیس تین سو روپے تھی۔ وہ مایوس ہو کر چل دی۔ گلی کے نکڑ پر ایک آدمی کھڑا تھا، آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک۔
“بی بی، اگر پیسوں کی ضرورت ہو تو میری بات سن لو۔”
مہرالنساء نے قدم روک لئے۔ “کیا چاہتے ہو؟”
آدمی نے آہستہ سے کہا، “صرف ایک رات، اور تمہارے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔”
وقت جیسے رک گیا۔ مہرالنساء کے کانوں میں گونج رہی تھی اس کی ماں کی نصیحت، “بیٹی، عزت سب سے بڑی دولت ہے۔”
مہرالنساء نے آدمی کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ ایک آئینہ تھا، جس میں اس نے اپنے چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے سب چہرے دیکھ لئے۔وہ پلٹی اور تیز قدموں سے چلنے لگی۔ دل میں ایک عجیب سی ہلچل تھی۔ ہر قدم کے ساتھ جیسے وہ اپنی خودی کو بچا رہی تھی۔
گھر پہنچتے ہی علی دروازے پر کھڑا تھا، “ماں! دیکھو، میں نے اپنی گلّک توڑ دی۔ اتنے سارے سکے نکلے!”
مہرالنساء نے کانپتے ہاتھوں سے سکے لئے۔ آنکھوں میں نمی تھی، مگر لبوں پر ایک پرسکون مسکراہٹ۔
رات کو علی سکون سے سو رہا تھا۔ مہرالنساء نے صندوقچی میں وہی پرانا کنگن اور انگوٹھی واپس رکھی۔آسمان پر چاند پورا تھا۔ مہرالنساء نے اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی روح کو بچا لیا تھا، اپنے چہرے کے پیچھے چھپے اصلی چہرے کو، جو اب پہلے سے زیادہ روشن تھا۔
���
موبائل نمبر؛8082403001
[email protected]