اِکز اقبال
کہتے ہیں کہ جنگ کبھی جیتی نہیں جاتی، صرف ہار ہوتی ہے،انسانیت کی، خوابوں کی، امیدوں کی۔ اور جب جنگ دو نیوکلیئر ممالک کے درمیان ہو تو یہ ہار محض چند خاندانوں یا بستیوں کی نہیںبلکہ نسلوں کی شکست بن جاتی ہے۔ شائد اب بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کو معلوم ہوگیا کہ جنگ حل نہیں ۔ خاص کر جب دونوں ملکوں کے پاس نیوکلیئر ہتھیار موجود ہوں ۔ ایسے میں جنگ کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہوگی۔خوشی کی بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان نے بین الاقوامی ثالثی کے نتیجے میں جنگ بندی کے عہد کی تجدید کی ہے۔ یہ فقط ایک فوجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک امید ہےکہ شاید ہم اب بارود سے نہیں، بات چیت سے مسئلے حل کریں گے۔ شاید اب توپوں کے دہانے نہیں، ذہنوں کے دروازے کھلیں گے، شاید اب ہم اپنے بچوں کے لیے ہتھیار نہیں، کتابیں خریدیں گے۔
مگر امن صرف ایک دستخط سے نہیں آتا، اسے دلوں میں بھی اُتارنا پڑتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا ناسور ہے جو دہلی و اسلام آباد کے بیچ نہیں بلکہ دلوں کے درمیان رستا ہے۔ جب تک جموں و کشمیر کا مسئلہ انصاف کے ساتھ حل نہیں ہوتا، اس وقت تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیاں کوئی امن دیرپا نہیں ہوسکتا۔ہم جانتے ہیں کہ جب دہلی یا اسلام آباد میں جنگ کا بگُل بجتا ہے تو سب سے پہلے ہماری فصلیں جلتی ہیں، ہمارے اسکول بند ہوتے ہیں، ہمارے روح مجروح ہوجاتے ہیں، ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں،اورہمیں جنازے اٹھا نے پڑتے ہیں،بارڈر کے اِس پار بھی اور اُس پار بھی۔ گولہ بارود نہ ہندو پہ رحم کرتا ہے نہ مسلمان پہ۔ وہ صرف ماؤں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بناتا ہے۔
ہماری دشمنی محض ایک لکیر کی مرہون منت ہے جو زمین پر کھینچی گئی تھی ،لیکن افسوس! اس نے ہمارے دلوں کو بھی دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا، ورنہ ہم کون سے الگ لوگ ہیں؟
ہم سب کو روٹی، عزت، سکون اور محبت چاہیے۔ ہم سب خواب دیکھتے ہیں، ہم سب اپنے بچوں کو امن دینا چاہتے ہیں۔ ہم سب غربت اور جہالت سے لڑنا چاہتے ہیںچاہے وہ لڑکا سیالکوٹ میں پیدا ہوا ہو یا امرتسر میں۔آج ہمیں وہی سوال دوبارہ پوچھنا ہوگا جو شاعر رحمان فارس نے بڑے سلیقے سے اٹھایا:
بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بھوکے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کیوں نہ ہم نفرت کی دیوار گرا کر انسانیت کا پل تعمیر کریں؟ کیوں نہ ہم اس نفرت کو وہیں دفن کر آئیں جہاں وہ پیدا ہوئی تھی ، سیاست کے تنگ نظر زاویوں میں؟اب دونوں ملکوں کو ملکر 144 کروڑ بھارتی عوام اور 25 کروڑ پاکستانی عوام کا سوچ کر تجارت، غربت اور انسانی ترقی پر کام کرنا چاہیے۔ جیسے یورپینز نے کیا۔یورپین یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جن قوموں نے ایک دوسرے پر ایٹمی بم گرائے، آج وہ ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر رہی ہیں، یونیورسٹیاں بانٹ رہی ہیں، خواب بانٹ رہی ہیں۔ تو ہم کیوں نہیں؟ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا دے رہے ہیں؟دشمنی؟ زہر؟ یا امن کا مستقبل؟ہمیں یہ سکھانا ہوگا کہ سرحد کے دونوں پار انسان بستے ہیں، دشمن نہیں۔ کہ اختلاف کے باوجود محبت ممکن ہے کہ پرندے جنگ کے حکم کا انتظار نہیں کرتے، وہ ہر موسم میں امن کا گیت گاتے ہیں۔یقین مانو آج ہم سب نفرت کی اس جنگ سے تھک چکے ہیں ۔ اب ہم ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے ہیں —ایسی دنیا جہاں لاہور سے دلی تک صرف محبت کی خبریں آئیں، جہاں کشمیر محض ایک زمین کا نام نہ ہو بلکہ امن کا استعارہ بنے۔
چلو مل کر لڑیں ہم تم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے اُدھورے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی ( رحمان فارس )
یہ وقت ہے کہ ہم تاریخ کو صرف پڑھیں نہیں، اس سے سبق بھی لیں۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو امن کی تعلیم دیں، جنگ کی نہیں۔کیونکہ آخر میں، صرف انسانیت باقی رہتی ہے—باقی سب راکھ ہو جاتا ہے۔
[email protected]