ڈاکٹر میر ساجد حسین
22اپریل 2025کی صبح، پہلگام کی پُرسکون وادیوں،جو کبھی کشمیر کی بے مثال قدرتی خوبصورتی کی علامت تھیں،ایک بے معنی تشدد کے واقعے سے داغدار ہو گئیں۔ بزدلانہ حملہ، جس میں مقامی اور سیاح دونوں بے گناہ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، نہ صرف شدید مذمت کے قابل ہے بلکہ ہر امن پسند کشمیری کے لیے گہرے صدمے کا باعث بھی ہے۔ اس سرزمین کا بیٹا ہونے کے ناطے، میں نہ صرف اس نقصان سے لرز گیا بلکہ اس طوفان سے بھی جو اس نے برصغیر میں چھیڑنے کی دھمکی دی۔
اگلے دنوں میں حالات کشیدہ رہے۔ بیانات میں شدت آئی۔ دونوں جانب افواج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا۔ فضا میں خوف محسوس کیا جا سکتا تھا،نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے بھارت اور پاکستان میں۔ ٹیلی ویژن مباحثوں نے حقائق کی جگہ غصے کو دے دی۔ “جنگ” کا لفظ بے احتیاطی سے ہر طرف گونجنے لگا، یہ بھولتے ہوئے کہ ہر تنازعے کے پیچھے زندگیاں ہوتی ہیں:نوجوان فوجی، کسان، طلباء، بچے۔ شکر ہے کہ دانشمندی غالب آئی، اور بارود کے ڈھیر کو بھڑکنے سے پہلے جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔
میں یہ ایک کشمیری۔بھارتی کے طور پر لکھ رہا ہوں، جس نے دہائیوں پر محیط تنازعات، کرفیو اور غیر یقینی حالات کا سامنا کیا ہے۔ جب بھی بھارت اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچتے ہیں، جموں و کشمیر کے لوگ کنٹرول لائن کے دونوں جانب سب سے پہلے اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ ہم نے کافی قبریں بھریں، کافی سکول بند کیے، کافی مواقع کھوئے کہ جان لیں کہ جنگ کبھی بھی حل نہیں تھی، نہ ہے۔
پہلگام واقعے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے، اور انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ خون بہا کر خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں، انہیں جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی، جنگ چاہے گولیوں سے لڑی جائے یا الفاظ سے،صرف ان لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے جو تنازعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حقیقی حل استقامت، دہشت گردی کی اجتماعی مذمت، اور سفارتی پختگی میں ہے۔
واقعے کے بعد اعلان کردہ جنگ بندی کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ یہ طاقت کا ثبوت ہے،انتقام کی کشش کو مسترد کرنے کی طاقت، انسانی زندگی کو ترجیح دینے کی طاقت، اور اس نازک امن کی حفاظت کرنے کی طاقت جو برسوں کی محنت سے قائم ہوا ہے۔ ہمارے لیے کشمیر میں، امن کوئی مجرد خیال نہیں، یہ روزمرہ کی ضرورت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو بچوں کو سکول جانے، کسانوں کو کھیت جوتنے، اور کاریگروں کو لکڑی اور اون سے خوبصورتی تخلیق کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں یہ سمجھیں کہ پائیدار امن ہتھیاروں سے نہیں بلکہ مکالمے، ترقی، اور تمام لوگوں،خصوصاً کشمیر جیسے خطوں کی عزت سے حاصل ہوتا ہے۔ پہلگام کا سانحہ آخری واقعہ ہو، نہ کہ ایک نئی سلسلے کا آغاز۔ آئیے ہم مرنے والوں کو انتقام سے نہیں بلکہ عزم سے خراج عقیدت پیش کریں،ایسا مستقبل تعمیر کرنے کا عزم جہاں وادیوں میں تشدد کی کوئی جگہ نہ ہو۔ایک کشمیری کے طور پر، میں نہیں چاہتا کہ میری سرزمین کو میدانِ جنگ کے طور پر یاد رکھا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے ایک پل کے طور پر جانا جائے،قوموں کے درمیان، ثقافتوں کے درمیان، اور امید و شفا کے درمیان۔
ترجمہ نگار ۔ ماجد مجید کشمیر یونیورسٹی