خورشید ریشی
پہلگام دلدوز سانحہ کے بعد سرحدوں پر جو تناو دیکھنے کو مل رہا تھا، اس سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اور چند روز کی خاموشی کے بعد سکوت ٹوٹ گیا اور آپریشن سِندور کے نام سے جوابی کارروائی شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کے بادل منڈلاتے ہوئے نظر آنے لگے ۔ انسانی جانوں کا زیاں شروع ہونے لگا اور ہر طرف ہو کا عالم نظر آنے لگا۔ اس دوران کئی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کا فرمان جاری ہوا اور شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھانے کا شروع ہوا اور ہر طرف گھپ اندھیرے نے کئی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
نادیدہ ساحلوں کے چراغوں کو گُل کرو
ہم کالے پانی میں گرفتار ہو گئے
جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور جنگ سے قوموں کا نشان مٹ جاتا ہے، خون کی ندیاں بہتی ہیں اور گھروں کے گھر اجڑ جاتے ہیں اور لوگوں کو زبردست مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے ہر ایک اپنے پروردگار سے امن کے لئے دعائیں مانگ رہا تھا
خدائے برتر تیری زمین پر زمین کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے
ہر ایک فتح و ظفر کے دامن پہ خون انسان کا رنگ کیوں ہے
زمین بھی تیری ہے ہم بھی تیرے یہ ملکیت کا سوال کیا ہے
یہ قتل و خون کا رواج کیوں ہے یہ رسم جنگ و جدال کیا ہے
کچھ دنوں کے تنائو کے بعد ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے اور سینکڑوں لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔سوشل میڈیا پر دل دہلانے والی تصاویر دیکھ کر ہر ایک آنکھ نم ہوئی اور پریشانی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔اس دوران بیرونی ریاستوں میں زیر تعلیم طلاب کے والدین ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئے کیونکہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے بچوں کو اس ماحول میں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔ ادھر بچے بھی سکولوں اور کالجوں سے نکل کر اپنے گھر آنے کے لیے پریشان تھے۔ غرض جنگی ماحول میں ہر ایک انسان پریشانی کے عالم میں مبتلا تھا اور سہم گیا تھا۔
مگر سنیچر کی شام کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا ٹویٹ سوشل میڈیا پر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گیا اور لوگوں کے چہروں تھوڑی بہت مسکراہٹ دیکھنے کو ملی اور ہر طرف چراغاں ہی چراغاں دیکھنے کو ملا۔ الغرض دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے اعلان سے سڑکوں اور بازاروں میں رونق اور چہل پہل دیکھنے کو ملی۔ عام لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے عید یا دیوالی کا تہوار ہو ۔ہر طرف اس اقدام کو سراہا گیا کیونکہ اس سے معصوم بچوں اور بزرگوں کے دلوں سے ڈر ختم ہو گیا اور انہیں یہ خوشی ہوئی کہ اب ہمیں شام ہوتے ہی اپنے گھروں میں بم دھماکوں کی آوازیں سنائی نہیں دیں گی اور اب ہمارے گھروں میں بھی روشنی کے دیے جلیں گے اور کل سے سکوں کے پل گزاریں گے۔
لوگوں میں خوشی کی لہر کیوں نہیں ہوتی کیونکہ جنگ کے بغیر بھی عام انسان کو سینکڑوں مسائل سے لڑ کر اپنی زندگی کو آگے بڑھانا پڑتا ہے جنگ کی تباہ کاریوں میں ان مسائل میں اور اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کو کو اپنے عزیزوں اور معصوم بچوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہر ایک کو اپنے اپنے مقدور کے مطابق امن کی بحالی کے لئے کام کرنا ہوگا اور ایسے افراد ،جو امن و سکون میں اپنی بزدلانہ حرکتوں سے رخنہ ڈالتے ہیں ،پر نظر رکھنی ہوگی اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے تمام اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں تب ہم آگے جاکر امن و سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں اور اپنے ان مسائل پر قابو پر کر اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں ۔
جنگ بندی کے اس اقدام سے ان دونوں ممالک کے سربراہوں نے اپنے اپنے عوام کی امن و سلامتی کو ترجیح دے کر انہیں جینے کا ایک اور موقع فراہم کیا۔ جنگ بندی کروانے میں جس نے بھی ثالثی کی وہ قابل ستائش ہے، البتہ دونوں ممالک میں ایسے ادارے موجود تھے جو تناو کے اس ماحول میں ثالثی کا کردار ادا کر سکتے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان رشتوں میں بہتری لا سکتے تھے مگر انہوں نے کیا کیا ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔وہ عام لوگوں کے مشکلات اور جنگ کی تباہ کاریوں سے ہونے والے نقصانات اور روز مرہ کے دوسرے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالنے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی رول ادا کر سکتے تھے اور دونوں ممالک کو آسانی سے جنگ بندی پر آمادہ کر سکتے تھے مگر ایسا کرنے سے ان کا کیا ہوگا سب جانتے ہیں مگر سچ تو یہی ہے کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں جنگ کے سوا ۔بہر کیف جنگ بندی کا خیر مقدم کیاجاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ یہ جگ بندی دائمی ثابت ہوگی اور مذاکرات کے ذریعے سبھی مسائل کا حل نکالا جائے گا تاہم اس کیلئے دونوں فریقین کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور پاکستان کو بھارت کے خدشات ایڈرس کرنا ہونگے۔
کھلونے والی عمروں میں انہیں ہم موت کیوں بانٹیں
بڑے معصوم بچے ہیں،تمہارے بھی ہمارے بھی
پڑوسی یار جانے دو ہنسو اور مسکرانے دو
مسلسل اشک بہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں
پرندے دانہ چُگتے ہیں،تمہارے بھی ہمارے بھی