یہ امر اطمینان بخش ہے کہ امریکی ثالثی کے نتیجے میں بالآخرہفتہ کی شام بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہوگئی ۔ گزشتہ چار روز کی جنگ سے پوری دنیا تشویش میں مبتلا تھی اور کئی سمتوںسے جنگ روکنے کی کوششیں ہورہی تھیں مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا تھا۔ آخرکار امریکہ کو مداخلت کرنی پڑی اورہفتہ کی شام صدر ٹرمپ نے ’ایکس‘ پر دنیا کو یہ خوش خبری سنائی کہ ہندوستان اور پاکستان جنگ بندی پر رضا مند ہوگئے ہیں ۔ پچھلے دوروز سے سرحد کے دونوں طرف خطرے کے سائرن بج رہے تھے۔ کشیدگی اپنی انتہاؤں پر پہنچ چکی تھی ۔ فوجی ٹھکانوں پر میزائل داغے جارہے تھے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ملکوں کے لیے یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال تھی۔دونوں ملکوں کے عوام ڈرے اور سہمے ہوئے تھے ۔ ایک ہی رات میں پاکستان نے ہندوستان کے26مقامات پر400ڈرونز داغے ۔صورتحال ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آرہی تھی تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اب امریکی مداخلت سے جنگ بندی ہوچکی ہے اور دونوں ممالک نیوٹرل مقام پر وسیع امور پر بات چیت پر بھی راضی ہوچکے ہیں ۔اس کی تصدیق امریکی وزیر خارجہ روبیو نے ایکس پر کی اور کہا کہ 48گھنٹوں کی مسلسل کوششوں کے بعد فوری اور مکمل جنگ بندی دونوں ممالک راضی ہوچکے ہیں اور اس عمل میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ،وزرائے خارجہ ،قومی سلامتی مشیروں اور پاکستانی آرمی چیف سے بات چیت کی گئی ۔اس کے بعد باضابطہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز نے بھی بات چیت کی اور جنگ بندی پر اتفاق کا اعلان کیاگیا جبکہ دونوں جانب سے جنگ بندی کے بعد ازاں اعلانات بھی ہوئے۔ اس سے قبل دونوں ممالک ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات لگا رہے تھے ۔بھارت تو کہتا تھاکہ اصل اشتعال 22اپریل کو پہلگام میں ہوئی اور ہم تو صرف اس کا جواب دے رہے ہیں جبکہ پاکستان کا موقف تھا کہ وہ پہلگام حملہ میں ملوثٖ ہی نہیںہے اور بین الااقوا می تحقیقات کیلئے تیار ہے ۔نئی دہلی کا ماننا تھا کہ کشیدگی ختم کرنے کی ذمہ داری اسلام آبادکی ہے جبکہ اسلام آباد مسلسل نئی دہلی پر کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام لگا کر دعویٰ کررہا تھا کہ پاکستان صرف اپنے دفاع کا حق استعمال کررہا ہے تاہم اب بات ذرا آگے نکل چکی تھی اور انہوںنے باضابطہ طور آپریشن سندور کے جواب میں آپریشن بنیان المّرسوس شروع کیا تھا۔اس معاملہ میں خطا کسی تھی اور کون ذمہ دارتھا ،اس بحث میںپڑے بغیر اس محدود جنگ کے نتیجہ میں دونوں جانب ایک سو سے زائد ہلاکتیں ہوگئیں جبکہ کروڑوں روپے کی املاک راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیںاور سرحدوں کے نزدیک آباد علاقوں میں زندگی ساکت ہوگئی اور ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہوگئے۔ہم نے بارہا انہی سطور میں لکھاکہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ جنگ اپنے ساتھ صرف تباہی اور بربادی لاتا ہے ۔اس محدود جنگ نے بھی یہ ثابت کردیا۔گوکہ ابھی یہ جنگ محدود پیمانے پر ہی جاری تھی تاہم یہ اپنے پیچھے موت و تباہی کی وہ داستانیں چھوڑ کرگیا جو انتہائی اندوہناک ہی نہیں بلکہ انتہائی کربناک بھی ہیں۔اب آج یعنی 12مئی کو دن بارہ بجے دونوں ممالک کے ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنز دوبارہ بات کریں گے جبکہ دونوںممالک کے حکام اب کسی تیسرے ملک میں وسیع امورات پر بھی بات چیت کریں گے ۔ظاہرہے کہ یہ بات چیت امریکی نگرانی میںہوگی کیونکہ امریکہ نے جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کیاہے تو اب امید کی جانی چاہئے کہ دونوں ممالک کی سیاسی و عسکری قیادت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام باہمی مسائل کو مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرے گی تاکہ دونوںممالک کی کروڑوںعوام کو چین سے جینے کا موقعہ مل سکے۔