پاسِ بقا کچھ نہ کچھ تو رحم کھایئے
ماحول میں نہ اسقدر تلخی بڑھایئے
حالات کو معمول پر لللّٰہ تو لایئے
مہلک مزاج ہوتے ہیں یہ جنگ کے نتائج
بہتر ہے اِس سے لاکھ کہ معیشت بڑھایئے
لڑنی ہی جنگ ہے تو لڑو بھوک پیاس سے
غربت ہو دور جس سے وہ بیڑا اُٹھایئے
دیتا نہیں ہے زیب کہ آپس میں لڑیں ہم
افواج کو نہ دُوبہ دُو سرحد پر لایئے
کیا دیکھنا چاہتے ہو پھر سے دورِ ہلاہل
پاسِ بقا کچھ نہ کچھ تو رحم کھایئے
ہم دامنِ اسلاف میں بے فرق پلے ہیں
مل جُل کے عید اور پھر دیوالی منایئے
لگتے ہیں یہاں جابجا اقوام کے میلے
مندر میں جایئے کبھی مسجد میں جایئے
جہاں رام اور رحیم میں مطلق نہ فرق ہو
ایثار و اخوت کا وہ گلشن کِھلائے
تعلیم جہاں عام ہو وہ ملک ہے فولاد
فرمانِ نبیؐ ہے کہ عالم گھر میں لایئے
جگدیش راج عُشاق ؔکشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
کوئی راہ تو ایسی بھی ہوگی
دنیا کی گہما گہمی میں
کوئی راہ تو ایسی ہوگی
جو دنیا والوں سے ہٹ کے
سب کو اپنی سی لگتی ہو
جسکا جیسے من چاہے،تو
ویسے ہی چلتا جائے وہ
بھٹکے تو اُس کو روکے نہ کوئی
کوئی نہ ٹوکے، کڑوا نہ بولے
ہر انساں انساں کو سمجھے
اس راہ میں کوئی بھٹکے اگر تو
طعنے نہ اس کو کوئی بھی دے
سب کے دل میں ہو رحم و شفقت
سب اس کو اپنا سا جانیں
پھر واپس اُُسے راہ پر لائیں
جیسے کوئی ماں کرتی ہے
راہ میں پھولوں کی کلیاں ہوں
کانٹے اس کے پاس نہ بھٹکیں
جو بھی راہی ہو اس کا بس وہ
من کا سچا اتنا سا ہو۔
جیسا دِکھتا ہو ویسا ہی ہو
چہرا نہ اُس کا کوئی دُوجا ہو
سید عطیہ تبسم
کشتواڑ ، جموں و کشمیر
[email protected]