میرے ہونٹوں کو اک نغمگی بخش دی
آپ نے یہ عجب زندگی بخش دی
وہ جفا بھی کرے چُپ سا رہتا ہوں میں
اُس نے اِک مستقل خاموشی بخش دی
عقل نے اُلجھنوں کے سِوا کیا دِیا
حُسن نے دل کو دیوانگی بخش دی
اب زیادہ کرم کی توقع نہیں
اپنوں نے کتنی بیگانگی بخش دی
اب یہ رہتی ہیں ہر حال میں تربہ تر
میری آنکھوں کو اُس نے نمی بخش دی
زندگی میں نہیں اب اندھیرا کوئی
اُس کی یادوں نے اَک روشنی بخش دی
اے ہتاش اُس سے ہم اور کیا مانگیں
اُس نے جب خوئے بادہ کشی بخش دی
پیارے ہتاش
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
مانا جہانِ حسن میں تو بے مثال ہے
میں بھی جوابِ عشق ہوں گر تو سوال ہے
نظروں کے سامنے ہے ترا پیکرِ حسیں
ہر لمحہ اپنے واسطے شامِ وصال ہے
دنیا ہے حسن و عشق کے دم سے سجی ہوئی
گر یہ نہ ہوں تو دہر میں جینا محال ہے
میں بھی وفا پرست ہوں تو بھی وفا شعار
پھر کیسا دوستی کے یہ شیشے میں بال ہے
سورج سمجھ کے مجھ سے بہت دور رہ چکے
اب تو قریب آئیے ، وقتِ زوال ہے
ٹھوکر لگی تو میں نے سنبھالا ہے کل کی بات
تم آج مجھ کو بھول گئے ہو کمال ہے
رخصت کے وقت گھیرے ہوئے ہیں مجھے رفیق ؔ
یہ سچ ہے یا کہ حلقۂ دامِ خیال ہے
رفیق عثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈٹ BSNL
آکولہ ، مہاراشٹرا
مستی ہے بے حساب آنکھوں میں
گُھل گئی ہے شراب آنکھوں میں
جی میں أتا ہے محوِ خواب رہیں
کتنے رنگیں ہیں خواب آنکھوں میں
یہ الگ بات چُپ ہی رہتی ہیں
ورنہ ہے ہر جواب آنکھوں میں
صرف دل کو یہ موہ لیتی ہیں
اور کیا ہے خراب آنکھوں میں
راحتیں بھی ہیں ان میں روبینہؔ
غم بھی ہیں بے حساب آنکھوں میں
روبینہ میر
راجوری، جموں کشمیر
کس طرح دم توڑ بیٹھی تیرے آنے کی خوشی
یعنی سچ میں کٹ رہی ہے تیرے بن یہ زندگی
تم نے اتنے زاویوں سے آزمایا ہے مجھے
اب تو خود بے بس پڑی ہے میرے آگے بے بسی
جسکا لہجہ پھول جھڑتا تھا یہ کل کی بات ہے
داستاں کتنی بیاں کرتی ہے اسکی بیکلی
چلچلاتا ایک صحرا ہجر میں تپتا ہوا
اور اُس میں ہے مقفل وجد کی وہ آگہی
اے میرے ماضی مجھے اِس حال میں تو بخش دے
اب تو حد سے بڑھ چکی ہے میری یہ آورگی
خیر مقدم ہر نئے غم کا میں کرتا ہوں عقیل ؔ
ہاں نظر آتا ہے مجھ کو راستہ یہ آخری
عقیل فاروق
بنہ بازار شوپیان، کشمیر
موبائل نمبر؛7006542670
دل شکستہ ہم نشیں ہے اِن دِنوں
اور پڑا گوشہ گزیں ہے اِن دِنوں
دھوپ میں چنوا دوں گا درد و الم
سایۂ گیسُو مزیں ہے اِن دِنوں
نرگسِ مستانہ ہے وہ مشق ناز
ہفت رنگ اور آبگیں ہے اِن دِنوں
کیوں دبیرِ عقل نے دکھلائی ہے
چرخ کج رو آخریں ہے اِن دِنوں
گردشِ ایام تُو ہے خوش نصیب
تابہ معراجِ یقیں ہے اِن دِنوں
کیوں گُلِ نغمہ سناتے ہو مجھے
نغمہ آرا، درد گیں ہے اِن دِنوں
آشنائے محفلِ عیش و طرب
محو حیرت ہم قریں ہے اِن دِنوں
کہہ رہا ہے اک نوائے عاشقانہ
لامکاں میں اک مکیں ہے اِن دِنوں
پھونک ڈالا اور تنِ بے جان میں
جل اُٹھا سوزِ یقیں ہے اِن دِنوں
یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
[email protected]
دوسرا کوئی اس کا ٹھکانا نہیں
ایک تتلی کو گُل سے اُڑانا نہیں
صرف اونچی دکاں پر ہی جانا نہیں
پھیری والے کو ہرگز بھلانا نہیں
چاہے کاغذ کے گل ہی سجا لو مگر
اپنی دھرتی میں کانٹے اُگانا نہیں
کوئی تحفہ ہو کتنا ہی سادہ مگر
اس کی قیمت کبھی کم لگانا نہیں
سو جگہ چاہے یہ نام لکھا ہے پر
اک جگہ سے بھی اس کو مٹانا نہیں
کتنی جلدی کہ مجرم اسے کہہ دیا
اس کی مجبوری کو ہم نے جانا نہیں
ایک بے گھر سبھی سے یہ کہتا رہا
ریت کا بھی گھروندا گرانا نہیں
چند سکوں سے بھی بچے کو لگتا ہے
اس سے بہتر کسی کا خزانہ نہیں
اک نیابیج ہونے سے پہلے یہاں
تم پرانے شجر کو گرانا نہیں
اس جگہ سے زمیں لگ رہی ہے جدا
چاند سے مجھ کو نیچے بلانا نہیں
چاہے سونے کا ہو یا ہو چاندی کا پر
پھینکے سکے کو ہرگز اٹھانا نہیں
پھیری والے کو کچھ سکے ہی بچتے ہیں
اس کے ساماں کی قیمت گھٹانا نہیں
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
کون ہوں کیا ہوں یہ سب بتانے سے قاصر ہوں میں
یوں سمجھ خود ہی منزل ہوں خود ہی مسافر ہوں میں
تُو ابھی دے رہا ہے مجھے پارسا کا خطاب
پر ابھی کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ کافر ہوں میں
ساتھ تو چل رہے ہیں مگر یونہی مجبوری میں
وہ مری امرتا ہے نہ ہی اس کا ساحر ہوں میں
رنگوں کا شیدا ہوں اور پروانہ ہوں حُسن کا
فسلفی ہوں کوئی اور نہ ہی کوئی شاعر ہوں میں
جانے کیا بات ہے تجھ میں میں کچھ نہیں کہہ سکا
ورنہ اے میری جاں دل دُکھانے میں ماہر ہوں میں
دنیا کی ان فضاؤں سے کیا لینا دینا مرا
اپنے ہی آسمانوں کا اپنا سا طائر ہوں میں
کوئی شامل نہیں اس فسانے میں میرے سوا
خود ہی تصویر خود رنگ اور خود مصّور ہوں میں
دنیا والو مجھے کم نہ سمجھو پڑھو غور سے
ذات کے بابِ اول کا اک حرفِ آخر ہوں میں
میرے منکر تجھے تو ذرا سی بصیرت نہیں
دیکھ تو دنیا کے ذرے ذرے میں ظاہر ہوں میں
میر شہریار
سریگفوارہ اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105
یہ فقط اُس کی ہی مہربانی ہوئی
بات بن گئی اور کہانی ہوئی
بات پِیّا نے جو پیار کی چھیڑ دی
مارے حیاء کے میں پانی پانی ہوئی
شوق آیا اِدھر اور شرم اُتری اُدھر
کیسی دونوں میں یہ کھینچا تانی ہوئی
کچھ خبر اپنی نہ جہاں کی خبر ہے
جب سے میں پِیّا کی دیوانی ہوئی
چاہا جس نے مجھے اِس قدر اے صورتؔ
نثار اُس پر یہ زندگانی ہوئی
صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549