مشتاق احمد قریشی
خاندان، انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور اس کی بنیاد جن دو ستونوں پر قائم ہوتی ہے، ان میں سے ایک عورت ہے۔ عورت بطور ماں، بیوی، بیٹی اور بہن خاندان کے ہر پہلو میں اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا کردار نہ صرف نسلوں کی پرورش میں اہم ہے بلکہ ایک مہذب، بااخلاق اور باکردار معاشرے کی تشکیل میں بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں جب خاندانی نظام مختلف سماجی، معاشی اور فکری دباؤ کا شکار ہے، خواتین کا تربیتی کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اس کی گود ہی وہ پہلا ادارہ ہے جہاں بچہ محبت، تحفظ، زبان، اقدار اور اخلاقیات سیکھتا ہے۔ جدید نفسیاتی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی ابتدائی پانچ سالہ زندگی میں ماں کا رویہ اور تربیت مستقبل کی شخصیت کی بنیاد رکھتی ہے۔ڈاکٹر ماریا مونٹیسوری کے مطابق، ’’ماں کی آغوش وہ جگہ ہے جہاں بچہ زندگی کے اصول سیکھتا ہے۔‘‘ اسلام بھی ماں کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔‘‘
ایک عورت بیوی کے طور پر گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے اور شوہر کی نفسیاتی و جذباتی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک سمجھدار اور باشعور بیوی نہ صرف شوہر کے دل کی سکون کا باعث بنتی ہے بلکہ بچوں کے لیے ایک محفوظ اور مثبت ماحول مہیا کرتی ہے۔محققین کے مطابق، گھریلو جھگڑوں کا سب سے بڑا اثر بچوں کی نفسیات پر پڑتا ہے۔ ایسے میں ایک بردبار اور تدبر سے کام لینے والی بیوی خاندان کو ٹوٹ پھوٹ سے بچا سکتی ہے۔
بیٹی، خاندان کا آئندہ سرمایہ ہوتی ہے۔ اگر بیٹی کو بچپن سے ہی تربیت، تعلیم، حیا، صبر اور احترام کے اصولوں پر پروان چڑھایا جائے تو وہ ایک کامیاب ماں، بیوی اور شہری بن کر خاندان و معاشرے کو فائدہ پہنچاتی ہے۔تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم یافتہ بیٹیاں خاندان کے مسائل کو بہتر انداز میں حل کرتی ہیں اور خود کو باعزت مقام دلواتی ہیں۔
عورت کی تعلیم، خیالات، رویہ، برداشت اور مذہبی رجحانات پورے خاندان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر عورت مثبت سوچ رکھتی ہو تو وہ اپنی اولاد کو بھی مثبت زاویہ نظر دیتی ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق ان خاندانوں میں جھگڑوں، ڈپریشن اور بے راہ روی کی شرح کم ہوتی ہے جہاں خواتین باعلم اور بااخلاق ہوں۔
عورت گھر میں بطور معلمہ کا کردار ادا کرتی ہے۔ وہ نہ صرف علمی تربیت میں حصہ لیتی ہے بلکہ دینی تعلیم، وقت کی پابندی، مہذب گفتگو، سماجی شعور اور صفائی جیسے اصولوں کی تعلیم بھی دیتی ہے۔ آج جب بچوں میں تہذیب، اخلاق اور وقت کی قدر کا فقدان نظر آتا ہے، اس خلا کو ماں ہی پُر کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ خود باشعور ہو۔
جدید دور میں خواتین کی تعلیم کو ترقی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنی نسلوں کی درست رہنمائی کر سکتی ہے۔ تعلیم عورت کو بااختیار بناتی ہے، اسے خود اعتمادی دیتی ہے اور فیصلہ سازی کی قوت بخشتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر اضافی تعلیمی سال ایک عورت کی آمدنی میں 10 تا 20 فیصد اضافہ کرتا ہے، جو بالآخر خاندان کے معیارِ زندگی کو بہتر بناتا ہے۔
روایتی طور پر عورت کو صرف گھر کے کاموں تک محدود سمجھا جاتا تھا، لیکن جدید دور میں اس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اب وہ تعلیم حاصل کر کے ملازمت بھی کر رہی ہے اور ساتھ ہی خاندان کی تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ یہ توازن قائم رکھنا اس کے لیے ایک چیلنج ہے۔سوشل میڈیا، موبائل فون اور انٹرنیٹ نے بچوں کی تربیت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب ماں کو خود ڈیجیٹل لٹریسی حاصل کرنا ضروری ہو گیا ہے تاکہ وہ بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔
اسلام میں عورت کی تربیتی ذمہ داریاں صرف بچوں تک محدود نہیں بلکہ شوہر، ساس، سسر اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی اس کی تربیت کا حصہ ہے۔ حضرت فاطمہ الزہراؓ، حضرت عائشہؓ اور دیگر صحابیات کی زندگیاں اس حوالے سے بہترین مثال ہیں۔اسلام عورت کو خاندان کا ’’مربی‘‘ تصور کرتا ہے جو شفقت، عدل، دانائی اور صبر سے گھر کو سنوارتی ہے۔
عورت کی ذہنی صحت بھی تربیتی کردار پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر عورت خود ذہنی دباؤ، مایوسی یا گھریلو تشدد کا شکار ہو تو وہ بچوں کو صحت مند تربیت فراہم نہیں کر سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ عورت کو خود ایک مثبت اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ خاندان کے لیے ایک فعال تربیتی ماخذ بن سکے۔خواتین کی تربیتی ذمہ داریوں کو کامیابی سے نبھانے کے لیے مرد کا تعاون ضروری ہے۔ ایک باخبر شوہر اور باپ عورت کو عزت، وقت، مشورہ اور تعاون دے کر اسے بہتر تربیت کی طرف راغب کر سکتا ہے۔تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ گھرانے جہاں مرد و عورت مشترکہ طور پر تربیت میں حصہ لیتے ہیں، وہاں بچوں کی تعلیمی، اخلاقی اور نفسیاتی حالت نسبتاً بہتر ہوتی ہے۔
عورت خاندان میں روایات، اقدار اور ثقافت کی امین ہوتی ہے۔ بچے جو کچھ سیکھتے ہیں، اس کی جڑیں اُن گھریلو رویوں اور اصولوں میں پیوست ہوتی ہیں جو ماں یا دیگر خواتین اختیار کرتی ہیں۔ مثلاً اگر ماں سچ بولنے، وقت کی پابندی، شکرگزاری اور عاجزی کی تلقین کرے تو بچے بھی انہی اصولوں کو اپنا کر سماج کا باوقار فرد بنتے ہیں۔
ایک تربیت یافتہ عورت نہ صرف اپنے خاندان کو سنوارتی ہے بلکہ محلہ، برادری اور وسیع تر سماج میں بھی مثبت رویے پھیلاتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دوسروں کے جذبات کا احترام سکھاتی ہے، رواداری کا سبق دیتی ہے اور تنازعات کو سلجھانے کا شعور دیتی ہے۔ یوں عورت ایک ایسی اکائی بنتی ہے جو خاندان سے نکل کر پورے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کرتی ہے۔اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ عورت کی پیشہ ورانہ زندگی اس کی گھریلو ذمہ داریوں کو متاثر کرتی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اعتدال میں ہے۔ جو عورت توازن برقرار رکھتی ہے، مثلاً وقت کی تنظیم، ترجیحات کا تعین اور خاندانی اقدار کو مقدم رکھنا، وہ دونوں محاذوں پر کامیاب رہتی ہے۔ اس کے برعکس اگر خاندانی تربیت پسِ پشت چلی جائے تو معاشرہ مہذب افراد سے محروم ہو جاتا ہے۔صرف انفرادی عورت پر ہی خاندان کی تربیت کی مکمل ذمہ داری ڈال دینا انصاف نہیں ہوگا۔ تعلیمی اداروں، میڈیا، اور حکومتی پالیسیوں کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کی رہنمائی اور تربیت کے لیے مثبت اور معاون ماحول فراہم کریں۔ خواتین کے لیے والدین کورسز، ذہنی صحت کی خدمات اور تربیتی ورکشاپس کا اہتمام نہایت اہم ہے۔
خواتین کا کردار خاندان کی تربیت میں محض ایک سماجی یا ثقافتی فریضہ نہیں بلکہ یہ ایک اخلاقی، تعلیمی اور قومی ذمہ داری ہے۔ ایک عورت کی آغوش میں نسلوں کی تعمیر ہوتی ہے۔ اگر یہ آغوش علم، بصیرت، اخلاق اور محبت سے بھرپور ہو تو معاشرہ خودبخود سدھر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم ایک بہتر نسل، بااخلاق سماج اور ترقی یافتہ قوم کے خواہاں ہیں تو ہمیں سب سے پہلے عورت کو تعلیم، تربیت، عزت اور سہولت دینا ہوگی تاکہ وہ اپنے اس فطری کردار کو خوبصورتی سے نبھا سکے۔
(مضمون نگارایک معلم ہیں، ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]