سبدر شبیر
کشمیر کا حسن ہمیشہ سے اس کی قدرتی خوبصورتی، لہلہاتے کھیت، گنگناتے جھرنے، برف پوش پہاڑ اور گھنے جنگلات میں پوشیدہ رہا ہے۔ ان ہی جنگلات کو اہلِ کشمیر محبت سے ’’سبز سونا‘‘کہتے ہیں۔ یہ صرف سرسبز درختوں کا ایک جُھنڈ نہیں بلکہ ایک مکمل ماحولیاتی نظام کا دل ہے، جس کی ہر دھڑکن ہمارے جینے کا سامان ہے۔ یہاں کے درخت آکسیجن کا ذریعہ ہیں، بارشوں کی ترتیب کا مرکز ہیں، اور بے زبان پرندوں، جانوروں، اور جڑی بوٹیوں کے ہزاروں خاندانوں کا گھر بھی ہیں۔ مگر افسوس، یہی سبز سونا آج ہماری آنکھوں کے سامنے سلگ رہا ہے، راکھ ہو رہا ہے، اور ہم بے حس تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
کشمیر کے مختلف اضلاع سے آئے روز جنگلوں میں لگنے والی آگ کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ کہیں کولگام اہربل و منزگام کے سبزہ زار دھواں اُگلتے ہیں تو کہیں ترال کی پہاڑیاں سیاہ راکھ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ترال کے پہاڑی دامن میں لپکتی آگ درجنوں ایکڑ جنگل کو خاک کر دیتی ہے، تو کپواڑہ کے جنگلات میں پرندے بے بسی سے جھلس کر مر جاتے ہیں۔ یہ محض قدرتی آفت نہیں، بلکہ اکثر اوقات ہماری غفلت، لالچ یا مجرمانہ سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک بے پروائی سے پھینکا گیا سگریٹ، ایک پکنک کے دوران سلگتا ہوا کوئلہ، یا جان بوجھ کر لگائی گئی آگ، سینکڑوں سالہ درختوں کو چند لمحوں میں راکھ کر دیتی ہے۔
درخت وہ محافظ ہیں جو خاموشی سے ہمیں جینے کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔ جب وہ جلتے ہیں، تو صرف لکڑیاں نہیں جلتی، زندگی کی بنیادیں جلتی ہیں۔ یہ آگ صرف سبزہ راکھ نہیں کرتی بلکہ فضاء کو زہر آلود بنا دیتی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ، بارشوں کی بے ترتیبی، زمینی کٹاؤ، ندی نالوں کی خشکی، سب انہی واردات کا شاخسانہ ہیں۔ جنگلات کا جلنا دراصل آنے والی نسلوں کی سانسیں چھیننے کے مترادف ہے۔ اگر ہم نے آج یہ آگ نہ بجھائی تو کل ہمارے بچے کتابوں میں درختوں کی تصویریں دیکھ کر ان کے وجود پر یقین کریں گے۔
ہم عموماً اس بربادی کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ مگر کیا یہ سچ ہے کہ صرف حکومت ذمہ دار ہے؟ کیا جنگلات صرف سرکار کی ملکیت ہیں؟ کیا ہمیں اس سرسبز ورثے سے کوئی لگاؤ نہیں؟ حکومت کا کام یقینا ہے کہ وہ جنگلاتی اہلکاروں کی تربیت کرے، جدید آلات مہیا کرے، ڈرونز کے ذریعے نگرانی کا نظام بہتر بنائے اور آگ بجھانے والی ٹیمیں ہر وقت تیار رکھے۔ لیکن جب تک عوام خود اپنے جنگلات کے محافظ نہ بنیں، تب تک کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ہمیں خود کو بیدار کرنا ہوگا، اور دوسروں کو بھی جگانا ہوگا۔ ہر گاؤں میں نوجوانوں پر مشتمل رضاکار ٹیمیں ہونی چاہئیں جو گرمیوں کے موسم میں جنگلات کی حفاظت پر مامور رہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اس مسئلے پر مباحثے اور آگاہی پروگرام ہونے چاہئیں تاکہ نئی نسل ان جنگلات کی اہمیت کو سمجھے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ محض خبر دینے پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس مسئلے پر تحقیقی رپورٹس اور عوامی مہمات چلائے۔ شعراء، ادباء، اور فنکاروں کو چاہیے کہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے اس کرب کو بیان کریں۔ مساجد کے منبروں سے بھی جب امام جمعہ یہ پیغام دیں گے کہ جنگلات کی حفاظت ایمان کا تقاضا ہے، تبھی یہ پیغام دلوں میں اُترے گا۔
جنگلوں میں لگنے والی آگ کا سب سے زیادہ اثر ان بے زبان مخلوقات پر ہوتا ہے جن کے پاس نہ کوئی پناہ ہوتی ہے، نہ آواز۔ پرندے اپنے انڈوں سمیت جل جاتے ہیں، جانور بھاگتے بھاگتے سڑکوں پر آ جاتے ہیں، اور پھر انسان انہیں مار دیتا ہے کہ وہ خطرناک ہیں۔ یہ کیسی انسانیت ہے جو پہلے ان کا گھر جلاتی ہے، پھر انہیں بے دخل کرتی ہے، اور آخر میں انہیں موت دیتی ہے؟ اگر ہم قدرت سے محبت کے دعویدار ہیں تو ہمیں اس محبت کا ثبوت دینا ہوگا۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم محض باتوں سے آگے بڑھ کر عمل کی طرف آئیں۔ جہاں آگ لگی ہو، وہاں فوراً اطلاع دیں۔ جہاں درخت جلے ہوں، وہاں نئے درخت لگائیں۔ اور جہاں لوگ غافل ہوں، وہاں انہیں جگائیں۔ جنگلات صرف ایندھن، لکڑی یا عمارتی سامان کا ذریعہ نہیں، یہ قدرت کا وہ تحفہ ہیں جو زمین کو زندہ رکھتا ہے۔
آئیے تصور کریں کہ اگر یہ جنگلات مکمل طور پر ختم ہو گئے تو کشمیر کیسا ہوگا؟ شاید وہی پہاڑ ننگے، وہی ندی نالے خشک، وہی پرندے گم، اور وہی ہوائیں ساکت ہو جائیں۔ کیا ایسا کشمیر ہم چاہیں گے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر ہمیں اب ہی، اسی لمحے، یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم خاموش تماشائی نہیں رہیں گے، بلکہ سبز سونے کے محافظ بنیں گے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک ایسا کشمیر دیں جہاں درخت سرگوشیاں کریں، پرندے گیت گائیں، اور ہوائیں خوشبو بکھیرتی پھریں۔ جہاں انسان قدرت کا خادم ہو، نہ کہ اس کا قاتل۔ اگر ہم نے یہ ذمے داری آج نہ نبھائی تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور ہماری خاموشی اس آگ کا ایندھن بن جائے گی جو آنے والی نسلوں کی امیدوں کو خاک کر دے گی۔
[email protected]