تلخ و شریں
رئیس یاسین
کبھی ہمارے آباو اجداد ہمیں یہ کہتے تھے، ’’پڑھو بیٹا، علم تمہیں عزت دے گا، علم تمہیں روشن مستقبل دے گا۔‘‘ ہم نے ان کی باتوں پر یقین کیا۔ ہم نے بچپن کے کھیل چھوڑے، جوانی کی خوشیاں قربان کیں، ہم نے اندھیری راتوں میں چراغ جلائے، سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں کتابیں سینے سے لگا کر خواب دیکھے۔ ہم نے بھروسہ کیا کہ علم ہمارا سہارا ہوگا۔ مگر۔۔۔جب آنکھیں کھلیں، تو حقیقت کسی بھیانک خواب سے زیادہ بھیانک نکلی۔ہزاروں نوجوان، بہترین ڈگریوں کے ساتھ آج گلیوں میں بے مقصد بھٹک رہے ہیں۔ ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں، مگر دلوں میں سوال ہیں۔ ’’کیا ہماری محنت کا یہی صلہ تھا؟کیا ہمارے خوابوں کی یہی قیمت تھی؟‘‘
یونیورسٹیوں سے نکلتے ہوئے جب والدین کی آنکھوں میں امید کی چمک دیکھتے تھے تو لگتا تھا، بس اب ہماری محنت رنگ لائے گی۔ مگر جب سالوں کی دوڑ دھوپ کے بعد بھی دروازے بند ملے تو ان آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی اور دل میں ایک ان کہی اداسی گھر کر گئی۔تعلیم اب کشمیر میں محض ایک فیشن بن چکی ہے —۔ ایک دکھاوا، ایک مذاق۔
کیونکہ نہ سرکاری نوکریاں ہیں، نہ پرائیویٹ سیکٹر۔ نہ انڈسٹری ہے، نہ کوئی امید۔ بس ایک خاموش تباہی ہے جو ہر دن ہماری نسل کو اندر ہی اندر کھا رہی ہے۔کتنے نوجوان ہیں جو ڈگریاں ہاتھ میں لیے مزدوری کر رہے ہیں۔ کتنے نوجوان ہیں جو مایوسی سے خودکشی کے دہانے تک جا پہنچے ہیں اور کتنے ہیں جو نشے کی لعنت میں ڈوب گئے، — صرف اس لیے کہ ان کے خوابوں کو معاشرے نے کچل کر رکھ دیا۔گھروں میں ماں باپ چپ ہیں، مگر ان کی آنکھیں بولتی ہیں۔ بوڑھے باپ دن رات دعائیں کرتے ہیں کہ شاید میرے بیٹے کو کہیں سے نوکری مل جائے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کے لیے اچھے رشتوں کی دعائیں کرتی ہیں، مگر جواب آتا ہے: ’’لڑکا کیا کرتا ہے؟‘‘اور جب جواب ہو کہ ’’بس ڈگریاں تو ہیں، کام کوئی نہیں‘‘ تو رشتہ بھی ٹوٹ جاتا ہے، خواب بھی۔حکومتیں آئیں، وعدے ہوئے، اعلانات ہوئے۔ — مگر نوجوانوں کے ہاتھ صرف کاغذی خواب آئے۔ ہماری زمینوں پر سیاست کی گئی، مگر ہمارے مستقبل پر کوئی پالیسی نہ بنی۔ ہماری امیدوں کا استحصال کیا گیا، مگر ہمارے مسائل کبھی سنجیدگی سے نہیں سنے گئے۔یہ زخم صرف بے روزگاری کا نہیں ہے — یہ زخم عزتِ نفس کے ٹوٹنے کا ہے۔ یہ زخم ایک پورے خوابیدہ معاشرے کی چیخ ہے، جو دب کر، ٹوٹ کر، بکھر کر رہ گیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس اندھیرے کو قبول کر لیں؟ کیا ہم اپنے خوابوں کو دفن کر دیں؟ کیا ہم صرف بے بسی کے آنسو بہاتے رہیں؟نہیں! ہرگز نہیں۔اب نئی نسل کو چاہیے کہ علم کو ہنر میں ڈھالے۔ ڈگری کے ساتھ ساتھ کوئی مہارت پیدا کرے۔ چھوٹے چھوٹے کاروباروں سے انقلاب لائے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرے، فری لانسنگ، آن لائن مارکیٹنگ، ای کامرس جیسے راستے اپنائے۔ اپنے لیے خود نوکریاں بنائے، دوسروں کو بھی روزگار دےاور سب سے بڑھ کر مایوسی کو خود پر حاوی نہ ہونے دے۔ کیونکہ یہ قوم جب تک جیتی ہے، جب تک اس کے نوجوانوں کی امید زندہ ہے۔آج ہر نوجوان کو اپنے دل میں یہ چراغ جلانا ہوگا کہ’’میں ہار نہیں مانوں گا، میں اس سسٹم سے شکست نہیں کھاؤں گا، میں اپنی تقدیر خود لکھوں گا۔‘‘کیونکہ تاریک ترین رات کے بعد ہی صبح ہوتی ہے اور شاید ہمارے صبر، ہماری محنت اور ہماری قربانیوں کے بعد ہی کشمیر کی وادیوں میں ایک نیا سورج طلوع ہو، جو ہمارے خوابوں کو نئی زندگی دے۔