فکرو ادراک
شفیع نقیب
جنوبی ایشیا کی فضاء ایک بار پھر جنگی شور سے لرز رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان، دونوں ایٹمی طاقتیں، کئی دہائیوں سے تلخیوں، غلط فہمیوں اور سیاسی کشیدگیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد جوابی بیانات، سرحدی جھڑپیں اور قوم پرستی کی تپتی ہوئی آوازیں بلند ہو جاتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے ۔کیا جنگ واقعی کسی مسئلے کا حل ہے؟
سانحہ پہلگام میں 26 معصوم جانوں کا زیاں ایک ایسی اجتماعی ٹریجڈی ہے جس نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک دلہن کی ڈھیر ہوتی خوشیوں، اور اس کے مجروح جذبات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان مقتولین کے لواحقین کے دلوں پر لگی چوٹ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایسے سانحات میں معصوم خون یونہی رائیگاں جاتا رہا، تو صرف امن نہیں انسانیت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہ وقت سیاست سے بالاتر ہو کر سچائی کی تلاش کا ہے۔ متعلقہ اداروں کو سنجیدگی، شفافیت اور دیانتداری کے ساتھ اس سانحے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہئے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ اس واقعہ کی آڑ میں مزید خون بہانے کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے۔ دونوں ممالک کے میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے اشتعال انگیزی کے بجائے صحافتی اصولوں کی پاسداری کرنی ہوگی۔ دشمنی کو وقت کی لہروں کے سپرد کر کے ایک نئی شروعات کی جانی چاہئے ،کیونکہ امن صرف ریاستوں کی ضرورت نہیں، یہ انسانوں کی زندگیوں کا مطالبہ ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر جنگ کے بعد فریقین کو بالآخر میز پر آنا پڑا ۔ بات چیت کے لئے، معاہدے کے لئےاور مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے۔ تاشقند معاہدہ (1966)، شملہ معاہدہ (1972) اور لاہور اعلامیہ (1999) اس بات کے گواہ ہیں کہ بالآخر مسائل کا حل صرف بات چیت میں ہی ممکن ہے۔ اگر آخرکار ہمیں بات چیت کرنا ہی ہے، تو پھر اس کا حساب خون سے کیوں کیا جائے؟
پاکستان اور بھارت کے عوام دونوں طرف جنگ نہیں چاہتے۔ وہ امن چاہتے ہیں، وہ تعلیم، روزگار، صحت اور خوشحال زندگی چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے بارود کے دھوئیں میں گم ہو جائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل علم و ترقی کی روشنی سے روشن ہو، نہ کہ جنگ و جدل کی تاریکی میں۔ یہ وقت ہے کہ ہم جنگ کی زبان کی جگہ مکالمے کی زبان اپنائیں۔ اختلافات ہیں، مسائل سنگین ہیں، لیکن ان کا حل میدان جنگ میں نہیں بلکہ میز پر ہی ہے۔ ہمیں اپنے لیڈروں سے یہ مطالبہ کرنا ہوگا کہ وہ جذباتی نعروں سے آگے بڑھ کر سنجیدہ مکالمے کا آغاز کریں۔ میڈیا کو بھی نفرت کی خلیج کو گہراکرنے کے بجائے ،محبت کے پُل استوار کرنے کاذریعہ بننا چاہئے۔آخرکار یہی کہناضروری ہے کہ جنگیں انسانوں کو مارتی ہیں،قوموں کو نہیں بچاتیں،اگرامن کی ایک اُمید باقی ہے،توہمیں اسے مرنے نہیں دیناچاہئے۔
(رابطہ۔9622555263 )