جموںوکشمیر اور لداخ کے مختلف حصوں میں زلزلوں کی خبریں مسلسل سامنے آرہی ہیںجن کی نوعیت سنگین نہیں ہوتی ہے اور عمومی طور پر اب تک کسی بڑے نقصان کی خبر سامنے نہیں آئی۔گزشتہ دنوںکشمیر عظمیٰ کے صفحہ اول پر شائع ایک رپورٹ میں کہاگیا تھا کہ کشمیر میں اوسطاًہر ماہ زلزلے کے تین سے چار جھٹکے محسوس کئے جاتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر ان دیکھی کرکے مکمل خاموشی اختیارکرلی گئی ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انتظامیہ ان حرکات شاقولی کو سرسری لے رہی ہے اور لوگوں کو یہ کہہ کر اضطرابی کیفیت سے باہر نکالنا چاہتی ہے کہ مزید کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔مانا کہ لوگوں کے دلوں سے خوف و دہشت مٹانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ ہم آتش فشاں کے ڈھیر پر ہیں جو خدا نہ کرے ،کبھی بھی ہمیں نگھل سکتا ہے۔ گزشتہ ایک دو برس کے دوران کشمیراور جموں میں منعقد ہونے والے ورکشاپوں اور سمیناروں میں ماہرین ارضیات نے کشمیرمیں زلزلوں کے حوالہ سے جو انکشافات کئے ،وہ ارباب اقتدار کی نیندیں اچٹ دینے کیلئے کافی ہیں۔ تحقیق کاروںکے مطابق کشمیر کے ہمالیائی سلسلہ میں ایک بڑے پیمانے کا زلزلہ خارج المعیادہو چکا ہے اور اب کسی بھی وقت وادی میں اس قدر شدید زلزلہ آسکتا ہے جو اس خطے کی جغرافیائی ہیت کو کلی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر آج سے ہی احتیاطی تدابیر سے کام نہیں لیا گیا تو بھاری پیمانے پر تباہی مچ سکتی ہے۔حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ان ماہرین کے انتباہ کو سنجیدگی سے لیتی ،لیکن لگتا ہے کہ یہ سب صدا بہ صحرا ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے قبل بھی عالمی سطح پر کی گئی ایک تحقیق میں برملا طور پر کہا گیاکہ جموں و کشمیر زلزلوں کے اعتبار سے سیسمک زون4میں آتا ہے جہاں زلزلوں کی شدت ریکٹر سکیل پر 6سے زیادہ ریکارڈ کی جائے گی جبکہ سرینگر شہر کوسب سے خطر ناک زون، 5میں رکھا گیا ہے جہاں زلزلوں کی شدت8سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق وادی کا شاید ہی کوئی علاقہ ہوگا جہاں تباہ کن زلزلہ آنے کا اندیشہ نہ ہو،لیکن حقیقت کا ادراک کر کے ہنگامی نوعیت کے اقدامات اٹھا نے کی بجائے حکومت مسلسل سچائی سے آنکھیں چْرارہی ہے جس کے نتیجہ میں کروڑوں لوگ اضطراب کے شکار ہیں۔ایک ایسا خطہ ،جو آتش فشاں کے ڈھیر پر ہو اور جہاں کبھی بھی ہلاکت خیز زلزلہ سے تباہی مچنے کا امکان موجود ہی نہیں بلکہ آنے کو ہو ،وہاں کی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے ،شایا شان نہیں ہے۔ جموںوکشمیر میں بے تحاشا تعمیرات ہو رہی ہیں اور حکومت کی جانب سے آج تک ایسے تعمیری ضوابط وضع ہی نہیں کئے جا رہے ہیں جن کے عملانے سے زلزلہ کے وقت کم سے کم نقصان ہو تا۔ستم ظریفی کی بات ہے کہ جموںوکشمیر میں ابھی تک ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نام کی تو ہے لیکن عملی طوراس کاکہیں وجود ہی نہیں ہے حالانکہ پورے ہندوستان میں آفات سماوی سے متعلق تمام تحقیق اور احتیاطی اقدامات انہی اتھارٹیوں کے زیر نگین اٹھائے جارہے ہیں۔جموں و کشمیر میں اس لحاظ سے نام لینے کیلئے یوٹی سطح پرایک ڈیزاسٹرمینجمنٹ کمیٹی قائم ہے جو مالی لحاظ سے اس قدر محتاج ہے کہ وہ اپنے بل پر چندعوامی بیداری پروگرام اور آزمائشی قوائد(Mock Drill) منعقد کرنے کے علاوہ کوئی بھی بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ وادی کشمیر میں ابھی تک حکومت ان علاقوں کی نشاندہی تک نہیں کی گئی ہے جہاں بھونچال کے وقت سب سے زیادہ تباہی مچ جانے کا اندیشہ ہے اور نہ ہی ایسے آلات دستیاب ہیں جوزلزلوں کی تحقیق میں کام آتے جبکہ ابھی تک زلزلاتی تحقیق کیلئے ماہرین کی خدمات بھی طلب نہیں کی گئی ہیںجس کے باعث ابھی تک زلزلوں کے حوالے سے مائیکرو زوننگ اور خاکہ سازی کر نا باقی ہے۔اس پر ستم یہ کہ وادی بھر میں زلزلہ کی شدت برداشت کرنے والے تعمیراتی ڈھانچہ کی عدم موجودگی مستقبل میں بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔چند سال قبل ایک سابق ریاستی حکومت نے شہر سرینگر میں زلزلہ سے غیر محفوظ عمارتوں کی سروے کی تھی جس کے بعد ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی جس میں قریب 2000ایسی عمارتوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو غیر محفوظ قرار دی گئی اور ان میں سے چند ایک عمارتوں کو بعد میں گرایا بھی گیا لیکن انکی جگہ بڑے تعمیراتی کمپلیکس کھڑا کئے گئے۔اس سروے پر بعد میں کوئی عملدر آمد نہیں کیا جاسکا اور وادی بھر میں لگا تاربے ڈھنگی تعمیرات کھڑا ہو رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر وادی میں 80فیصد عمارات زلزلے کیلئے محفوظ نہیںکیونکہ انہیں بنانے کے دوران اس چیز کا کوئی بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے کہ یہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کر پائیں گی یا نہیں۔صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حالیہ زلزلے حکومت کی نیند اچٹ دینے کیلئے کافی ہونے چاہئیں ۔وقت آگیا ہے کہ جب کاغذی گھوڑے دوڑا نے کی بجائے عملی طور کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اگر خدا نخواستہ آنے والے دنوںمیں ایسی کوئی حرکت شاقولی وادی کشمیر کو ہلا ڈالے تو اس وقت کم سے کم جانی اور مالی نقصان اٹھا نا پڑے۔