سبدر شبیر
سردیوں کی دھند آہستہ آہستہ گاؤں کی خاموش گلیوں کو اپنی آغوش میں لے رہی تھی۔ شام کی زرد روشنی مسجد کے پرانے حجرے کی دیواروں پر تھکی تھکی لہک رہی تھی۔ اس حجرے میں ایک دری بچھی تھی، ایک چراغ جل رہا تھا، اور ایک شخص… خاموش، تنہا، آنکھیں دروازے پر جمائے… بیٹھا تھا۔ وہ یوسف تھا۔ لوگ اُسے مجذوب کہتے، کوئی دیوانہ، کوئی اللہ والا۔ مگر یوسف کو دنیا کے لقبوں سے کوئی غرض نہ تھی وہ اکثر ایک ہی جملہ کہتا: “مجھے اُس کا انتظار ہے۔” یہ “وہ” کون تھا؟ یہ سوال گاؤں کے ہر فرد کے دل میں اٹکتا تھا مگر کوئی مکمل جواب نہ پا سکا۔ یوسف کے چہرے پر نور تھا، آنکھوں میں قرار اور زبان پر ذکر۔ وہ اکثر مغرب سے فجر تک حجرے میں بیٹھا رہتا، کبھی تسبیح، کبھی تلاوت، اور کبھی گہری خاموشی۔
پچیس سال پہلے یوسف بھی عام نوجوانوں جیسا تھا۔ خواب، محبت، خواہشیں… سب اس کے ہم سفر تھے۔ اس کی دنیا رابعہ تھی ۔ نرمی، محبت اور حیا کا پیکر۔ دونوں ایک دوسرے سے عشق کرتے تھے مگر حالات کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ رابعہ کسی اور کے نصیب میں چلی گئی۔ یوسف کی دنیا اجڑ گئی۔ اس رات وہ مسجد کے کونے میں بیٹھا رو رہا تھا، جیسے دل کا بوجھ کائنات پر برس رہا ہو اور پھر اُس کی زبان سے وہ جملہ نکلا: “یا اللہ! جس سے محبت کی، وہ نہ ملی، اب تُو وہ دے جو میرا ہو، جو کبھی جدا نہ ہو!” اسی لمحے دل کے اندر ایک صدا گونجی: “تو میرا ہو جا، میں تیرا ہو جاؤں گا۔” یہ لمحہ اُس کے عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی میں بدل گیا۔ وہ دنیا کی راہوں سے ہٹ کر رب کی راہ کا مسافر بن گیا۔ دن عبادت میں، راتیں دعا میں، اور دل ایک ہی جملے میں گم: “مجھے اُس کا انتظار ہے۔”
وقت گزرتا گیا، سالوں نے دہائیوں کی شکل لی۔ یوسف وہی حجرہ، وہی دری، وہی چراغ، وہی سجدے… اور وہی انتظار۔ کبھی کوئی پوچھتا، “یوسف! کیا یقین ہے کہ وہ آئے گا؟” یوسف کی آنکھیں بھیگ جاتیں، تبسم چہرے پر آ جاتا، اور وہ کہتا: “یقین نہیں، ایمان ہے۔ اُس نے وعدہ کیا ہے کہ جو اُسے یاد رکھے گا، وہ کبھی اُسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔”
ایک دن، ایک اجنبی مسافر حجرے میں داخل ہوا۔ چہرے پر تھکن، کپڑوں پر گرد، اور دل میں بے سکونی۔ “میں دنیا کی ہر محبت میں دھوکہ کھایا، ہر رشتہ آزمودہ ہے۔ اب کچھ بھی باقی نہیں۔” یوسف نے نرمی سے مسافر کے شانے پر ہاتھ رکھا اور دھیمے لہجے میں بولا: “کبھی اُس سے عشق کیا جس کی محبت ازل سے ہے؟ جو ماں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے؟ جو بندے کو اُس کے حال سے پہلے جانتا ہے؟” مسافر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ رات حجرے میں ٹھہر گیا۔ تسبیح یوسف کی چلی، آنکھیں بند، ہونٹوں پر تبسم۔
فجر کی اذان بلند ہوئی ۔ “الصلاةُ خیرٌ من النومِ”۔ اذان کے ساتھ ہی یوسف کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ آئی۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھا، آنکھیں بند کیں… اور ہمیشہ کے لئے اُسی سے جا ملا جس کا وہ برسوں سے انتظار کر رہا تھا۔ صبح جب لوگ حجرے میں آئے تو یوسف کا چہرہ چمک رہا تھا۔ پیشانی پر سجدے کا نشان اور ہونٹوں پر تسلی۔ کسی نے آہستہ سے کہا: “یوسف کا انتظار ختم ہوا۔” دوسرا بولا: “نہیں، وہ اُس سے جا ملا… جو اُس کا تھا، جس کے لئے اُس نے دنیا چھوڑی، زندگی گزاری، راتیں جاگیں، سجدے کئے۔”
اب وہی اجنبی مسافر روز اس حجرے میں آتا ہے۔ تسبیح، تلاوت، تنہائی… اور آنکھیں دروازے پر۔ اگر کوئی پوچھے، “کیا کر رہے ہو؟” تو وہ بھی یوسف کی طرح کہتا ہے: “مجھے اُس کا انتظار ہے۔”
���
اوٹو اہربل کولگام
[email protected]