عادل نصیر
” سراج ابھی بھی گھر نہیں لوٹا۔ اسے احساس بھی نہیں رہتا ۔ اس کے باپ کے مرنے کے بعد میرا اس کے سوا کون ہے ۔ اس اکیلے گھر میں کتنا خوف آتا ہے اس کے بنا” سراج کی ماں صحن کے گیٹ پر نظریں جمائے من ہی من بڑ بڑا رہی تھی۔ اپنے بیٹے کے لئے فکرمندی اس کی منتظر نگاہوں سے صاف جھلک رہی تھی۔ سراج ایک فرماں بردار بیٹا تھا اور اپنی ماں سے تو بہت محبت کرتا تھا لیکن چند ماہ سے کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ گھر دیر سے آنا ، ماں سے دوری اختیار کرنا ، اکیلے بیٹھنا ،بات بات پر غصہ ہونا، بہکی بہکی باتیں کرنا اور عجیب حالت میں گھر لوٹنا یہ سب خلاف معمول تھا ۔ اس کی غریب اور بیوہ ماں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور بیچاری روز اسی طرح شام کا آتش فشاں ڈوبتے ہی دہلیز پر آکر بیٹھ جاتی اور اپنے لخت جگر کا انتظار کرتی ۔
آج بھی سراج کا انتظار کر رہی تھی کہ سراج صحن میں داخل ہوا اور ماں کو دہلیز پر دیکھ کر اس کے دل کا لاوا ابلنے لگا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں اور بھاری ادھ کھلی آنکھیں لئے ماں کی جانب بڑھا اور ایک جست میں ماں کو دھکا دیا اور اس کا گلہ اپنے مضبوط ہاتھوں کے پنجوں میں جکڑنے لگا۔ چند لمحوں میں اس کی ماں کی پھڑپھڑاہٹ رک گئی لیکن وہ کھلی آنکھوں سے اپنے بیٹے کا یہ وحشی روپ دیکھ رہی تھی۔
���
ہندوارہ کپوارہ،کشمیر، موبائل نمبر؛7780912382