عبدالمجید بھدرواہی
شاہداب تین سال کا ہو چکا تھا، مگر اس کی ماں پروین اس سے دودھ چھڑانے میں کسی طرح کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس نے لاکھ کوشش کی کہ شاہد اس کا دودھ پینا چھوڑ دے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ محنت مزدوری کر سکے جو کہ اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔ اس لئے پروین نے اپنی چھاتیوں پر کونین کی ٹکیاں پیس کر لگا ئیں ، کبھی ہینگ گھوکر لگایا اور کبھی گوند اور کالی اون چپکاتی مگر شاہد کا دودھ پھربھی نہیں چھوٹا۔ کبھی کبھار اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہتی .
بیٹا شاہد ! اب تو ، تو ماشا اللہ تین سال کا ہو چکاہے۔ خدا کے لئے اب تو میری خلاصی کرتین سال تک کون بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے ۔ دودھ پلانے کے علاوہ بھی تو مجھے اور کام ہیں، اگر میں ہر وقت تمہیں گود میں لئے دودھ ہی پلاتی رہوں گی تو محنت مزدوری کون کرے گا اور مزدوری نہیں کروں گی تو پھر کھا ئیں گے کیا ؟“
ایک شام کو جب پروین کام پر سے بہت تھکی ماندی گھر لوٹ آئیں تو اس نے جی میں ٹھان لی کہ چاہے کچھ بھی ہو آج کے بعد وہ شاہد کو دودھ نہیں پلائے
گی ۔ شاہد نے بھی دودھ پینے کے لئے کافی ضد کی مگر پروین نے بالکل دودھ نہیں پلایا۔ آخر کا روہ روتے روتے سو گیا۔ رات کو پروین نے محسوس کیا کہ بچے کا ماتھا تپ رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ شاید بہت رونے کی وجہ سے اس کا ماتھا گرم ہوا ہے۔
صبح سویرے پروین حسب معمول جاگی مگر شاہد ابھی تک سویا ہوا تھا۔ اس کے جگانے پر بھی جب وہ نہ جا گا تو اس نے دیکھا کہ شاہد بالکل بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ اس کی گردن اکڑگئی ہے۔ پروین نے بچے کو جلدی سے گود میں اٹھایا اور اُسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی ۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ بچے کو سر سام ہو گیا ہے اور یہ خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ خدا ہی اپنا فضل کرے ورنہ ایسے مریض کا بچنا محال ہے۔ پروین یہ سن کر پریشان ہو اٹھی۔ تھوڑی دیر میں شاہد کی سانس تیز ہونے لگی نبض مدھم پڑ گئی، چہرے پر مردنی سی چھانے لگی۔ پروین کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کے لخت جگر کی حالت اتنی جلدی خراب ہو سکتی ہے۔ وہ اس کی لمحہ بہ لمحہ بگڑتی ہوئی حالت کو دیکھ کر زار و قطار رونے اور چھاتی پیٹنے لگی۔ اس نے اپنے سر کے بال نوچ ڈالے۔ روتے روتے اس کا بہت برا حال ہو گیا جیسے کہ پاگل ہوگئی ہو۔ پھر اس نے یکبارگی شاہد کے بے حس و حرکت جسم کو اپنے سینے سے لگایا اور نیم پاگل پن کی حالت میں وہ اس کے منھ کو اپنی چھاتیوں سے لگا کر دودھ پلانے لگی ۔ شاہد نے نہ آنکھیں کھولیں اور نہ ہی منھ کھول کر دودھ پیا۔
پروین ہدیانی حالت میں اشکبار آنکھیں لئے کہہ رہی تھی … بیٹا شاہد ! لے دودھ پی لے، جی بھر کر دودھ پی لے میں تجھے اور تین سال تک دودھ پلاؤں گی۔ کھول آنکھیں منھ کھول ، لے دودھ پی لے مگر شاہد نے نہ دودھ پینا تھا نہ پیا۔ اس کی روح تو قفس عنصری سے کب کی پرواز کر چکی تھی اور پروین اس ہذیانی حالت میں اپنی دودھ بھری چھاتیاں ہاتھوں میں لے کر رہ گئی، بالکل اکیلی تن تنہا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ چاروں طرف سے تنہائی کے آسیب خوفناک چہرے لئے اپنے نوکیلے پنجے گاڑنے کے لئے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ اکیلی ہے، بالکل اکیلی، اس کے پاس کوئی بھی نہیں ہے۔ شاہد بھی نہیں ہے، وہ خود دور چلا گیا ہے اور اسے اسی ویران اور تنہائی کی شاہراہ پر ڈال گیا ہے جس کو ختم کرنے کے لئے وہ چار سال قبل ایک اجنبی کے ساتھ نکل پڑی تھی ، جس نے شاہد کی صورت میں اسے کھلونا دے کر کہیں اور کی راہ لی تھی ۔
���
ہمہامہ سرینگر
موبائل نمبر؛ 8825051001