یو این آئی
غزہ// اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 40 فلسطینی ہلاک ہوگئے ۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کے بے گھر فلسطینیوں پر حملے جاری ہیں۔رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کھانے پینے کے سامان اور امداد کی بندش تیسرے ماہ میں داخل ہوگئی ہے جس سے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔جمعرات کے روز غزہ پر اسرائیلی فوج کی بربریت کے نتیجے میں کم از کم 31 فلسطینی ہلاک ہوئے اور جمعہ کی صبح سویرے حملوں میں مزید ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔غزہ میں الجزیرہ کے نامہ نگار نے علاقے میں داخل ہونے والی امداد پر اسرائیل کی 60 روزہ ناکہ بندی کو شہری آبادی کا جان بوجھ کر گلا گھونٹنے کے طور پر رپورٹ کیا ہے ۔اسرائیل نے غزہ پر رات بھر حملے جاری رکھے ، جس کے باعث کیمپ میں پناہ لئے ہوئے پانچ افراد سمیت کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے ۔واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کا بنیادی مقصد یرغمالیوں کی واپسی نہیں ہے ۔ایک تقریب سے خطاب میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ہم غزہ میں موجود 59 یرغمالیوں کو واپس لانا چاہتے ہیں لیکن اس جنگ کا بنیادی مقصد دشمن کو شکست دینا ہے ۔دوسری جانب اسرائیل نے شام میں صدارتی محل کے قریب ڈرون حملہ کیا جس میں دمشق کے نواح میں شامی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حملے کو شامی حکومت کے لیے پیغام قرار دے دیتے ہوئے کہا کہ دروز کمیونٹی کے خلاف کوئی خطرہ یا فورسز بھیجنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہ حملہ شامی فورسز اور شام کی دروز کمیونٹی کے درمیان جھڑپوں کے بعد کیا گیا۔
غزہ کو قحط زدہ علاقہ قرار دینے کا مطالبہ
یو این آئی
غزہ// غزہ کی وزارت صحت نے خوراک کے سنگین بحران کے پیش نظر اقوام متحدہ سے غزہ کو قحط کا علاقہ قرار دینے کی اپیل کی ہے ۔وزارت کے ڈائریکٹر جنرل منیر البرش نے جمعرات کو کہا کہ غزہ کے 91 فیصد لوگوں کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے ، جب کہ 65 فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 92 فیصد بچے اور دودھ پلانے والی مائیں شدید غذائی بحران کا شکار ہیں جو ان کی زندگیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے ۔ موجودہ صورتحال اقوام متحدہ کو غزہ کی پٹی کو قحط زدہ علاقے کے طور پر تسلیم کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔البراش نے کل انادولو نیوز ایجنسی کو بتایا کہ “غزہ کے تقریباً 91 فیصد باشندوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے جبکہ دیگر 65 فیصد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے ۔” انہوں نے کہا، “تقریباً 92 فیصد بچے اور دودھ پلانے والی مائیں خوراک کی کمی کا شدید شکار ہیں جو ان کی زندگیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہیں،” انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ “غزہ کی پٹی کو قحط زدہ علاقے کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے ۔”غزہ کی وزارت صحت نے کل طبی اور انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے کارکنوں سے جنگ کے علاقے میں فلسطینی بچوں کی مدد کے لیے ایک ہفتہ طویل مہم شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ وزارت نے طبی اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ ہنگامی طبی ٹیمیں، ادویات، ابتدائی طبی امداد اور دیگر صحت کا سامان غزہ بھیجیں اور حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں پر انکلیو کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔وزارت صحت کے مطابق، 18 مارچ سے غزہ میں 2,300 سے زیادہ افراد ہلاک اور 6,000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے 18 مارچ کو غزہ کی پٹی پر دوبارہ حملے شروع کر دیے ۔ اس کی وجہ فلسطینی تحریک حماس کا یکم مارچ کو ختم ہونے والی جنگ بندی میں توسیع کے امریکی منصوبے کو قبول کرنے سے انکار تھا۔اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں ڈی سیلینیشن پلانٹ کو بجلی کی سپلائی منقطع کر دی اور انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں کا داخلہ بند کر دیا۔