سبزار احمد بٹ
یہ ایک مُسلمہ حقیقت ہے کہ حق اور باطل کے درمیان ازل سے ہی ایک کشمکش رہی ہے ۔ حق اور باطل میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہوا ۔ یہ آگ اور پانی، روشنی اور اندھیرا، جھوٹ اور سچ، حق اور باطل کی طرح ہمیشہ الگ ہی رہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے حق کا ساتھ دیا انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب، دائمی کامیابی، اور عزت نصیب ہوئی بھلے ہی اس میں دیر لگی ہو اور بھلے ہی حق پر رہنے والوں کی تعداد قلیل ہی کیوں نہ ہو جبکہ جن لوگوں نے باطل کا ساتھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی کی انہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی، دائمی ناکامی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا انجام عبرتناک رہا ،پھر چاہے ان کی تعداد کثیر ہی کیوں نہ ہو ۔
زیر نظر کتاب بھی خاکی محمد فاروقی کا ایک ایسا نایاب کارنامہ ہے جس میں ایسے بارہ لوگوں کی زندگیوں کو پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی کی ہے۔ ظلم کی انتہا کی اور اپنے لئے عبرتناک انجام کو دعوت دی ۔ یہ کتاب اس نوعیت سے بھی اہم ہے کہ انسان جب تک جھوٹ اور باطل کا ادراک نہیں کر سکتا ہے تب تک اسے حق اور سچائی کا ادراک بھی نہیں ہو سکتا ہے موصوف نے اس کتاب میں ان لوگوں کی زندگی اور عبرتناک انجام کا خلاصہ کیا ہے جنہیں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انتہائی بد ترین قرار دیا ہے ۔ ان میں نمرود، آزر، فرعون، ہامان، قارون، سامری، ابرہ، ابوجہل، ابولہب، عبداللہ بن ابی، مسلیمہ کذاب، اور دجال شامل ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید اور احادیث کی کتابوں میں ان بدترین لوگوں کی کرتوتوں کا بھی ذکر ہے اور ان کے انجام کا بھی ۔ موصوف نے قرآن و حدیث سے وہیں تفاصیل جمع کر کے انہیں عام فہم اور سادہ زبان میں ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی ایک عمدہ کوشش کی ہے تاکہ قارئین کے سامنے باطل نظریات کو پھر سے ایک بار نمایاں کیا جائے ۔ سب سے پہلے نمرود کا ذکر ہوا ہے اس کی زندگی پر بات ہوئی ہے پھر مصنف نے حضرت ابراہیم اور نمرود کی معرکہ آرائی کو دکھایا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم چونکہ ایک اللہ کو ماننے والا تھا اس کا دعویٰ تھا کہ ایک اللہ ہی ہے جو اس پورے نظام کو چلاتا ہے دوسری طرف بد بخت نمرود خدائی کا دعویٰ کرتا تھا ۔نمرود نے پوری قوم کو حضرت ابراہیم کے خلاف کر دیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ ابراہیم کو جلانے یا قتل کرنے تک کی تیاری ہوئی ۔ پھر ابراہیم نے سوچا کیوں نہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے پر نمرود سے مناظرہ کیا جائے ۔ طویل بحث کے بعد ابراہیم نمرود سے کہتا ہے کہ ’’ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا‘‘ بس پھر کیا تھا نمرود بے بس اور لاجواب ہو گیا ۔ بات صرف ایک نمرود کی نہیں ہے آج بھی کتنے لوگ نمرود بنے بیٹھے ہیں یہ سوال ان سب کے لیے بھی ہے۔ مصنف نے وہ واقع بھی درج کیا ہے جب ابراہیم کو آگ میں ڈالا جاتا ہے اور اللہ کے حکم سے وہ آگ کا الاو گلزار بن جاتا ہے۔کیونکہ اللہ جسے نقصان نہیں پہنچانا چاہے اسے پوری دنیا مل کر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی اس بات پر ہمارا ایمان ہے بالآخر ایک معمولی مچھر نمرود کی ناک میں گس جاتا ہے اور نمرود سسک سسک کر مر جاتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے جن قوموں پر اپنا عذاب اور غضب مسلط کیا ان کا ذکر نمرود کی قوم کے ساتھ کیا گیا جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ نے اس قوم کو کسی سخت عذاب میں مبتلا کیا ہوگا ۔اس کے بعد بت ساز آزر کے بارے میں مفصل مضمون قلمبند کیا گیا ہے جس میں مصنف نے آزر اور اس کے فرذند حضرت ابراہیم کے درمیان ایک مکالمہ بھی پیش ہوا ہے ۔ اور مصنف نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ کتنا ہٹ دھرم تھا آزر دعوت دینے اور مختلف معجزے دکھانے کے بعد بھی السلام قبول نہیں کیا اور بالآخر اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ گیا ۔ اس کے بعد فرعون کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ کس طرح فرعون نے اللہ کے پیغمبر خضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زیادتی کی اسے جھٹلایا اور خود خدا ہونے کا دعویٰ کیا ۔ فرعون اس قدر تکبر کے نشے میں چور تھا اور خدائی کا دعویٰ کر رہا تھا ۔ بہت سمجھانے پر بھی نہیں مانا۔ بالآخر فرعون ڈوب گیا اور اس کی لاش آج بھی مصر کے تماشہ گاہِ خاص و عام میں عبرت کا نشان بنی ہوئی ہے ۔ ڈوبتت ہوئے ٹھوڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جو اب تک ٹوٹی ہوئی ہے اور باقی جسم سلامت ہے ۔ آج بھی لوگ مصر جاکر اس لاش کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں ۔ فرعون کا انجام آج بھی خدائی لہجے میں بولنے والوں، اللہ رب العزت کے ایک ہونے کے منکروں، اسلام کا مذاق اڑانے والوں اور مسلمانوں پر طرح طرح سے ظلم ڈھانے والوں کے لیے ایک سبق بلکہ عبرت ہے۔دنیا کے تمام ایسے فرعونوں کو فوراً سے پیشتر باز آجانا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ باز آجائیں لیکن پھر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح فرعون نے ڈوپتے وقت اصل ربّ کو پکارا تھا لیکن اس وقت پکارنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا، مصنف نے پیارے نبی ؐ کے چچا ابوجہل کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے کہ جس طرح انہوں نے نبی کریمؐ کو ستایا، اُنؐ پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے اور اسلام کا مذاق اڑایا، اس کا کیا انجام ہوا یہ بھی بتایا گیا۔ ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چاہے حضرت ابراہیمؑ کا باپ آزد ہو یا بنی کریمؐ کا چچا ابوجہل ۔ اگر اللہ اور اس کی دین کے نہیں ہیں تو ان کے بھی نہیں ہے۔ یعنی جو اللہ کا نہیں ہے اللہ کے دین کا نہیں ہے وہ کسی کا نہیں پھر چاہے انکار کرنے والا پیغمبر کا باپ ،بیٹا یا چچا ہی کیوں نہ ہواور بھی بدترین لوگ ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں اور جن کے عبرتناک انجام پر بات ہوئی ہے ہر ایک پر بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ کہنا چاہوں گا کہ کشمکش کا سلسلہ تب بھی تھا حق اور باطل کے درمیان اور اب بھی تھا ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ کتاب اس نوعیت سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں جن لوگوں کو ذکر ہوا ہے ان کا عبرتناک انجام وقتی نہیں ہے بلکہ رہتی دنیا تک۔ جو لوگ اللہ رب العزت کی روگردانی اور نافرمانی کریں گے، جو لوگ دنیا میں کھو جائیں گے ، تکبر میں اس قدر غرق ہو جائیں گے کہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگیں گے، انہیں یہ کتاب پڑھ کر اپنا انجام دیکھ لینا چاہیے،انہیں بدترین لوگوں کے انجام میں اپنا انجام نظر آئے گا۔ یہ کتاب اگر چہ نیکی کی طرف بلانے اور بدی سے بچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ اس میں اللہ رب العزت کی روگردانی اور نافرمانی کرنے والوں کا عبرتناک انجام دکھایا گیا ہے، تاہم کتاب پڑھ کر قاری کی تشنگی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی ۔ جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے ان کا حال اس سے بُرا ہوا جتنا دکھایا گیا ہے اور تاریخ میں اس سے زیادہ بھی بدترین لوگ گزرے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ بدترین لوگوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔بہر حال میں یہ کہنا چاہوں گا اس سے بہتر ہوتا اگر پانچ ہی بدترین لوگوں کا ذکر ہوتا تو بہتر رہتا کیونکہ مزید تفصیل اور وضاحت ممکن ہوتی ۔ میری رائے میں اس کتاب کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہونا چاہیے تاکہ موجودہ دور کے فرعونوں تک بھی ان بدترین لوگوں کے انجام کی خبر آئے اور وہ اپنے انجام سے باخبر ہو جائیں۔
رابطہ۔7006738436
[email protected]