محمد مطاہر خان
موجودہ دنیا کو کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں غذائی تحفظ، موسمیاتی تبدیلی اور زرعی اجناس اور مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی ممالک کو قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر غیر معمولی بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمے دار ممالک بدترین نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ متاثرہ ممالک عالمی برادری کی جانب سے ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کا سبب صنعتی ترقی ہے، جس کی وجہ ایندھن کا استعمال ہے۔ دوعشرے قبل ہی ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو سیلاب اور خشک سالی کا بیک وقت سامنا کرنا پڑے گا۔ دو عشرے قبل ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کردیا تھا کہ ہم موسم کے رتھ پر سوار تیزی سے میدانِ حشر کی جانب رواں ہیں تو ہم نے سائنسدانوں اور مفکرین کی تنبیہات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ جب دو تین برس قبل کینیڈا اور امریکا کے مغربی ساحل پر وینکوور اور سیاٹل کے اضلاع میں درجۂ حرارت نے پہلی بار پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ کا ریکارڈ قائم کیا تو ہم نے فرض کر لیا کہ یہ تو محض حسنِ اتفاق ہے۔ جب برمنگھم میں عالمی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری گوتریس نے کہا کہ شاید ہمارے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہے ، درجۂ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتا رہی ہے کہ اب سے آٹھ برس بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔ ہم نے سوچا کہ یہ محض قیاس آرائی ہے مگر آج کا موسمِ بتا رہا ہے کہ کوئی سائنسداں یا خطرے کا بگل بجانے والا مدبر نہیں بلکہ ہم بجائےخود خوش فہم اور عاقبت نااندیش ہیں اور آج مِس مینجمنٹ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آج جدید سائنسی دور اور مصروف ترین زندگی میں ماحولیاتی آلودگی ایک بین الاقوامی چیلنج بن چکی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی میں بری، بحری اور فضائی آلودگی بھی شامل ہیں اور ان آلودگیوں کے سبب انسان تو انسان، حیوان، چرند پرند حتیٰ کہ نباتات تک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، کیوں کہ انھیں ایسی کھلی فضا، صاف ہوا اور تر و تازہ ماحول ہی میسر نہیں ،جس میں وہ صحت بخش سانسیں لے سکیں۔ آج جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اسے مختلف کیمیائی مرکبات نے نہایت آلودہ بنا دیا ہے، جس سے کرہ ٔارض پر زندگی اور زمینی ماحولیات کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔
ہم نے پہلے جنگلات کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا، دریاؤں سے بے تحاشہ ریت بجری اٹھانی شروع کی ،جس سے دریاؤں کی سطح میں کھارا پانی عود آیا۔ اس نے سمندروں سے کثیر تعداد میں مچھلیاں پکڑ کر انھیں اپنی غذا بنایا، جس سے سمندری حیات کا وجود خطرے میں پڑگیا۔ جنگلات کے کٹاؤ سے فضا میں آکسیجن کی کمی ہو گئی۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا اور ساری فضا زہریلی بن گئی۔سمندروں اور دریاؤں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کی حفاظتی غلاف ’’اوزون‘‘ میں سوراخ کر دیا ،جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگیں تو جلد کے سرطان جیسے موذی و مہلک امراض بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ادھر بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور نتیجتاً بلند تر ہوتی ہوئی عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) نے رفتہ رفتہ قطبین پر جمی برف کو پگھلانا شروع کردیا۔ قطبین پر وسیع و عریض برفانی تودوں کی شکل میں میٹھے پانی کے ذخائر پگھل پگھل کر سمندر میں داخل ہو رہے ہیں اور ان کی دبازت اور رقبے دونوں میں بتدریج کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے قدرتی ماحول کے ساتھ ’’انسانی ترقی‘‘ کے نام پر سنجیدہ مذاق کا سلسلہ بند نہ کیا تو خدشہ ہے کہ آنے والے پچیس سے تیس سال میں ہم ماحول کو اتنا شدید نقصان پہنچا چکے ہوں گے ، جس کی تلافی بھی ممکن نہ ہو گی، ہماری اس عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں نہ صرف دوسرے جانداروں بلکہ خود ہمارا نوع انسانی کا وجود اور مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔
ہماری فضا و ہوا کو زہریلا و آلودہ کرنے والے عناصر میں گاڑیوں اور کاروں سے نکلنے والے دھوئیں میں شامل مختلف مرکبات کے ساتھ کاربن، سیسے اور سلفر کے مرکبات بھی شامل ہوئے ہیں۔ یہ سیسہ انسانی اعصابی نظام اور ذہن پر برے اثرات مرتب کرتا ہے جب کہ سلفر کے مرکبات تیزابی بارشوں کا سبب بنتے ہیں، جس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ نباتاتی حیات و حیوانات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔زمینی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے اور پودوں، پھلوں اور فصلوں کی پیداوار اور معیار بھی متاثر ہوتے ہیں۔فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور ان کے فضلات دریاؤں اور ندیوں میں بہا دیے جاتے ہیں جو پانی کو آلودہ کر رہے ہیں ۔ندیوں میں بہنے والا سیال جتنا شفاف پانی ہوتا ہے اتنا ہی سیاہ بھی ہے فیکٹریوں کے دھوئیں اور فضلات میں ہیلوجن، سلفر اور نائٹروجن کے مرکبات کاربن مونو آکسائیڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈرو کاربن، ہائیڈروجن سلفائیڈ، کرومیم، لیڈ اور کاپر کے علاوہ آرسینک جیسی خطرناک دھات بھی شامل ہوتی ہے جن سے ہماری صحت کو کئی طرح کے نقصانات و بیماریاں، دل کے امراض، اعصابی امراض، ذہنی و جسمانی امراض، پیٹ کی بیماریاں، گردے کی بیماریاں اور کینسر جیسے مہلک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ سمندری پانی میں آلودگی کی ایک وجہ بحری جہازوں سے تیل کا بہنا بھی ہے جو پانی کی اوپری سطح پر پھیل کر پانی میں آکسیجن کو داخل ہونے سے روکتا ہے، جس سے آبی حیات کو آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور بہت سے پرندے اور مچھلیاں وغیرہ اس تیل میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔
کوڑا کرکٹ، درختوں اور جنگلات کے جلنے سے بھی کئی طرح کی مضر صحت گیسیں اور زہریلے مرکبات ماحول کو مسلسل آلودہ کر رہے ہیں، فصلوں اور دوسری اشیا کو مختلف بیماریوں اور کیڑوں سے بچانے کے لیے متعدد ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے استعمال سے کارسینو جینک اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ ادویات نہ صرف ہماری فضا بلکہ غذا کو بھی آلودہ بناتی ہیں۔
ہمارے ماحولیاتی آلودگی کا ایک اور سبب پولی تھین کے تھیلے بھی ہیں جو تحلیل نہیں ہوتے اور اگر انھیں جلایا جائے تو اس عمل سے ضرر رساں کیمیائی اشیا اور گیسیں کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کی ایک کثیر مقدار خارج ہوتی ہے چنانچہ انھیں جلایا بھی نہیں جاسکتا پھر جو چیزیں ان میں بند ہوتی ہیں وہ سڑتی ہیں جن سے طرح طرح کے جراثیم آرگینزمس پیدا ہوتے ہیں جو مختلف قسم کی بیماریوں اور ماحول کی غیر صحت یابی کے ذمے دار بنتے ہیں۔ ریفریجریشن، پیکیجنگ اور ہمارے زیر استعمال مختلف اقسام کے اسپرے میں ایک خاص قسم کے کیمیائی مرکبات استعمال ہوتے ہیں جنھیں کلورو فلورو کاربن کہا جاتا ہے انھیں مختصراً سی ایف سی بھی کہتے ہیں ان کا ایک اور نام قریٹون بھی ہے۔ جن کے بارے میں سائنس دان 1970ء کے وسط میں واقف ہوئے کہ یہ مرکبات اوزان کی تباہ کاری کا باعث بن رہے ہیں جو ہماری زمین کے گرد ایک تہہ کی صورت میں حفاظتی غلاف ہے اور بالائے بنفشی شعاعوں کو سطح زمین تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی آج ہمارے لیے ایک ایسے سنگین اور خطرناک مسئلے کے طور پر ابھر رہی ہے کہ جس کا سدباب نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ہمارا ماحول اپنے قدرتی اور فطری پن کو کھو بیٹھے گا اور آنے والی نسلیں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوکر معاشرے کو ایک اذیت زدہ معاشرہ بنادے گی، جس طرح ماحولیاتی آلودگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اسی طرح دنیا بھر میں موسمی تبدیلی بھی تیزی سے رونما ہورہی ہے اور ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
آلودگی ہمارے دور کا سب سے سنگین اور گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے، ترقی یافتہ ممالک تو وسائل بروئے کار لاکر کسی حد تک آلودگی پر قابو پانے میں کامیاب ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک جو وسائل کی کمی کا شکار ہیں آلودگی پر قابو پانے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر ایشیائی ممالک تو بری طرح آلودگی کا شکار ہیں اور یہاں کی تقریباً نصف آبادی پر موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔