معصوم مرادآبادی
وادی کشمیر کے حسین ترین سیاحتی مقام پہل گام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسے ممبئی حملوں کے بعد شہریوں پر کی گئی سب سے زیادہ وحشیانہ کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔ سیاحوں کو اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ پہل گام کی شہرہ آفاق بیسرن ویلی میں قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ حملہ آور وں نے پولیس اور فوجی وردی میں سیاحوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد26 بتائی گئیہے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ اس حملے کی پورے ملک میں شدید مذمت ہورہی ہے۔ سبھی نے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے قصورواروں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔حالانکہ پاکستان نے اس حملے میں اپنا ہاتھ ہونے سے انکار کیاہے، لیکن اب تک خفیہ ایجنسیوں نے جو معلومات اکٹھا کی ہیں ،ان میں شک کی سوئی ہمیشہ کی طرح اسی کی طرف ا ٹھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اس راستے کی بھی نشاندہی کردی گئی ہے جہاں سے حملہ آور پہل گام تک پہنچے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت ہند نے پاکستان کے خلاف اب تک کے سب سے سخت اقدامات کئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی انتہاؤں تک پہنچ گئی ہے۔اگر واقعی یہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے تو یہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہماری حکومت و ادی کشمیر میں دراندازی کو روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرتی ہے۔ اس پر بیش بہا دولت خرچ کرنے کے علاوہ اسرائیل سے خریدے گئے خفیہ آلات بھی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ہماری فوج اور نیم فوجی دستے بھی ہمہ وقت سرحد پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اس سب کے باوجود اگر دہشت گرد سرحد عبور کرکے دہشت پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیںتو یہ ہمارے حفاظتی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس حملے کے بعد بھی سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔وزارت داخلہ ، وزارت دفاع اور خفیہ ایجنسیاںاس میں منہمک ہیں۔ وزرات دفاع میں تینوں افواج کے سربراہوں کی ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی ، جس کی صدارت وزیردفاع راجناتھ سنگھ نے کی ۔ اس میٹنگ میں بحری ، بری اور زمینی فوج کو بہت چوکنّا رہنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ اس قسم کی کوئی دوسری واردات انجام نہ دی جا سکے۔ وزیرداخلہ امت شاہ حملہ کے روز شام کو ہی سرینگر پہنچ گئے تھے اور انھوں نے گورنر ، وزیراعلیٰ اور سیکورٹی حکام کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنا سعودی عرب کا دورہ نامکمل چھوڑ کر واپس آگئے ۔ سبھی نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ قصور واروں کو زمین کی تہہ سے نکال کر عبرتناک سزا دیں گے۔
بلا شبہ یہ ایسی بزدلانہ کارروائی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس دہشت گردانہ کارروائی کے خلاف کشمیری عوام اور سیاست دانوں میں بھی اتنا ہی غم وغصہ ہے جتنا کہ ملک کے دیگر خطوں کے عوام میں ۔ جہاں ایک طرف محبوبہ مفتی اور میرواعظ نے اس حملے کی مذمت کی ہے، وہیں حملے کی رات وادی کے باشندے کینڈل مارچ نکالتے رہے۔لال چوک پر بھی اس حملے کے خلاف بے نظیر احتجاج کیا گیا۔
اس وحشیانہ حملے میں مقامی باشندوں کی شرکت کا امکان اس لیے نہیں ہے کہ اس کا سب سے بڑا نقصان سیاحت کو پہنچے گا۔ سیاحت ،وادی کشمیر کی شہ رگ ہے اور گرمیوں کے موسم میں یہاں ملک وبیرون ملک کے سیاحوں کا ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ سیاح مقامی باشندوں کو روزی روٹی فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ اس لیے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس میں کشمیریوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب دہشت گردوں نے نہتے اور بے گناہ سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ کی تو انھیں ہسپتالوں تک پہنچانے اور طبی امداد فراہم کرنے کا کام مقامی باشندوں نے کیا اور ان کی فوری مداخلت سے کئی زخمیوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔یہاں تک کہ عادل حسین شاہ نام کے ایک مقامی مزدور نے اس لیے جان گنوائی کہ اس نے دہشت گردوں سے ان کی رائفل چھیننے کی کوشش کی تھی۔اگلے دن سرینگر کے اردو اخبارات سیاہ حاشیوں کے ساتھ شائع ہوئے اور سبھی نے اس کارروائی کی پرزور مذمت کی۔ حالانکہ گودی میڈیا کے کئی چینل اس کارروائی کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی پوری کوشش کررہے ہیں تاکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ماحول خراب ہو، لیکن ابھی تک ملک کے عوام نے صبر وتحمل کا دامن نہیں چھوڑا ہے اور وہ اتحاد ویکجہتی کی مثال پیش کر رہے ہیں ۔ دراصل دہشت گردی اور فسطائیت کو اتحاد اور یکجہتی کے راستے سے ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ ملک میں جو عناصر فرقہ وارانہ منافرت پھیلارہے ہیں وہ دراصل ملک دشمنوں کے ہاتھوں کو ہی مضبوط کررہے ہیں۔ بیرونی خطرات سے نپٹنے کے لیے اندرونی طور پر ملک کے باشندوں کا اتحاد بنیادی ضرورت ہے۔ ہم اسی وقت بیرونی دشمنوں کو زیرکرسکتے ہیںجب داخلی طورپر متحد ہوں گے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کشمیر میں انتہاپسندی کا سب سے منفی اثر وہاں کی سیاحت پر پڑا ہے۔لیکن اب کئی برسوں سے صورتحال بدل گئی ہے ۔جن لوگوں نے ملی ٹینسی شروع ہونے کے بعد وادی کا سفر نہیں کیاہے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں سیاحت دم توڑ چکی ہے۔ میرا بھی یہی خیال تھا ، لیکن گزشتہ سال جب میں نے ایک ہفتہ وادی کشمیر میںگزارا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں آنے والے سیاح دہشت گردوں سے خوفزدہ نہیں ہیں ۔ میں نے گل مرگ ، سون مرگ اور پہل گام میں جن سیاحوں کا ہجوم دیکھا ان میں نوّے فیصد غیر مسلم تھے۔ وہ جن ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں ، جن شکاروں میں ٹھہرتے ہیں اور جو لوگ اپنیٹیکسیوںسے انھیں سیاحتی مقامات تک پہنچاتے ہیں ، وہ سب کے سب مقامی مسلمان ہیں ۔ یعنی مقامی باشندوں کی روزی روٹی ان ہی سیاحوں سے چلتی ہے۔ ایسے میں یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کشمیری عوام ان پر حملہ آور ہوں گے ۔ ظاہرہے ایسا کرنا خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔جن لوگوں نے پہل گام کو لہولہان کیا ہے وہ کشمیری عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، کیونکہ پہل گام کی واردات کے بعد نوّے فیصد سیاحوں نے کشمیر چھوڑ دیا ہے۔
وادی کشمیر کے سیاحتی مقامات کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی خوبصورتی اور حسن کا ہرکوئی شیدائی ہے۔ وادی کے کئی مقامات سوئزرلینڈ کے سیاحتی مقامات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کا حسنلا جواب ہے۔ سوئزرلینڈ تک پہنچنے کے لیے جہاں لاکھوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں آپ کشمیر کے سیاحتی مقامات کی سیر ہزاروں میں کرسکتے ہیں۔یہ وادی جنت نظیر ہے اور ہندوستان کا دل ہے۔ اس دل کو توڑنے کے لییجو طاقتیں سرگرم ہیں ، وہ زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مودی سرکار نے جن وعدوں اور ارادوں کے ساتھ کشمیر سے دفعہ370کا خاتمہ کیا تھا۔ جن منصوبوں کے تحت جموں وکشمیر کی صوبائی حیثیت ختم کرکے اسے یونین ٹیریٹری بنایا گیا تھا اور دہشت گردی پر قابو پانے کی باتیں کہیں تھیں وہ آخر زمین پر کیوں نظر نہیں آرہی ہیں۔ملک کے عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر کشمیر سے سیاہ رات کا خاتمہ کب ہوگا اور وہاں کے باشندے چین کی نیند کب سوسکیں گے؟ ظاہر ہے یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب حکومت کو دینا چاہئے۔