غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزربسر کرنے والے جموں وکشمیر کے 13لاکھ لوگ موجودہ مہنگائی کے دور میں بنیادی اشیاء کے حصول کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور حکومت ان کے مسائل سے لاتعلق ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق جہاں 2009-10میں جموںوکشمیر میں غربت کی شرح 9.4فیصد تھی وہیں2011-12میں یہ شرح بڑھ کر 10.35فیصد تک پہنچ گئی ۔تشویشناک امر یہ ہے کہ سطح افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ دیہی علاقوں میں دیکھنے کو ملا ہے جہاں پہلے یہ شرح محض8.1فیصد تھی اور اب یہ بڑھ کر11.5فیصد تک پہنچ گئی ۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جموں و کشمیر میں 23.27لاکھ لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں جن میں سے 10.73دیہی اور2.53لاکھ شہری علاقوں میں آباد ہیں۔سوال پیداہوتا ہے کہ غریبی کے خاتمہ کے لئے مرکز کی جانب سے چلائی جارہی کئی سکیموں کے باوجود ریاست میں غرباء کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ کیوں ہورہا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران آئی اے وائی ،منریگاسمیت تقریباً نصف درجن سکیمیں صرف اس مقصد کے تحت شروع کی گئیں کہ دیہی بھارت میں غریبی کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ بھارت اصل میں دیہات میں ہی آباد ہے ۔ان سکیموں کے تحت دیگر ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر کو بھی سالانہ اربوں روپے فراہم کئے گئے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنا یا جاسکے تاہم جس طرح ان سکیموں کے الٹے نتائج برآمد ہورہے ہیں ،وہ واقعی تشویشناک اور لمحہ فکریہ بھی ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا کہ جب پور ے ملک میں غریبی آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے ،جموں و کشمیر میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔وجہ صاف ہے کہ غریبی کے خاتمہ کیلئے شروع کی گئی وقاری سکیموں کو اس ریاست میں صحیح انداز میں روبہ عمل نہیں لایاجاسکا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ صورتحال نہیں ہوتی ۔ویسے بھی یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہاںیہ وقاری سکیمیں ایک مخصوص طبقہ کیلئے سونے دینے والی مرغیاں ثابت ہوچکیں ہیں اور مٹھی بھر لوگوں کے علاوہ بیشتر غرباء کو ان سکیموں کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ پارہا ہے ۔آواس یوجنا سے لیکر مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانتی سکیم تک ہر ایک سکیم کو اس کی اصل روح میں عملانے کی بجائے ان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیاگیا اور نتیجہ کے طور پر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے ۔اب اگر حکومت اپنے سر سے بھلا ٹالنے کیلئے دوسروں کو ذمہ داٹھہرائے تو بات بننے والی نہیں ہے کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلاحی سکیموں کی شفاف عمل آوری یقینی بنائے تاہم جب حکومتی مشینری ہی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہو تو انصاف کون کرے گا؟۔ تازہ اعداد وشمارنے ارباب بست و کشاد کے دعوئوں پر سوالیہ نشان لگادیا ہے اور یہ وقت ہے کہ حکومت اپنے گریباں میں جھانک کر خود احتسابی سے کام لے ۔دیہی و شہری ترقیاتی محکموں کے احتساب کا وقت آچکا ہے کیونکہ یہی دو محکمے دیہی و شہری آبادی کی فلاح و بہبود کے ساتھ براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ان محکموں کے ذریعے ریاست کوغریبی کے خاتمہ کیلئے ملنے والے اربوں روپے کے حساب کا وقت آچکا ہے کہ آخر وہ پیسہ کہاں گیا کیونکہ اگر وہ پیسہ صحیح معنوں میں صحیح مد پر خرچ ہوا ہوتا تو غریبوں کی تعدادمیں کمی کی بجائے اضافہ نہیں ہوا ہوتا۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے دال میںکچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کال نظر آرہی ہے ۔معاملہ کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو ا ہے اور خامیوں کی نشاندہی کرکے خاطیوں کو سزا دینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو راحت مل سکے۔ ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے افراد کیلئے کوئی پالیسی ترتیب دینی چاہئے تاکہ وہ بھی اپنا گزاراکر سکیں۔ ایسے لوگ پہلے 5اگست کے فیصلے سے فاقہ کشی کا شکار ہوئے ،بعد میں انہیں کورونا نے پریشانی سے دو چار کر دیااورفی الوقت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے بڑھ جانے کے بعد مہنگائی آسمان کو چھو گئی ہے، ہرچیز مہنگی ہوگئی ہے اور غریب کنبے کے بس میں نہیں کہ وہ خرچہ برداشت کر سکے۔سروے کے مطابق کورونا لہر کی وجہ سے جموں کشمیر میں 6لاکھ کا روزگار چلا گیا ہے۔ جموں وکشمیر میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جن کی کمائی صفر اور خرچہ بے تحاشہ ہے اور حکام مہنگائی کے جن پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسے مزدوروں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، جنہیں دن میں کبھی کبھار ہی مشکل سے کام ملتا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ غربت کے خاتمہ کیلئے حکومتی سکیموں کو حقیقی معنوں میں روبہ عمل لایا جائے تاکہ غربت کا خاتمہ نہ کہ غریبوںکا !۔