فاضل شفیع بٹ
میں علی الصُبح شہر کے لئے ایک ضروری کام کے لئے نکلا تھا۔ اپنے گاؤں کی سڑک سے قومی شاہراہ پر ابھی اپنی گاڑی کو موڑے ہوئے یہی کوئی آدھا گھنٹہ ہوا ہوگا کہ شاہراہ کے کچھ فاصلے پر ایک جگہ بہت سی گاڑیاں رکی ہوئی پائیں اور بیسوں لوگوں کو وہاں جمع دیکھا۔ میں تذبذب اور استعجاب میں گاڑی روک کے نیچے اتر گیا۔ بھیڑ کے ذرا قریب جا کر دیکھا کہ ایک نوجوان خون میں لت پت سڑک پر پڑا ہوا تھا ۔بھیڑ کے مطابق ابھی ابھی ایک تیز رفتار ٹرک نے اسکوٹر پر سوار نوجوان کو ٹکر ماری تھی اور خود فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
بہت سے لوگ اس دل دہلا دینے والے واقعے کو اپنے اپنے موبائل فون میں قید کر رہے تھے ۔اس دل دوز حادثے کا سماں سوشل میڈیا پر لائیو جاری تھا ۔وہ نوجوان زیست اور موت کی کشمکش میں شاید اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ کچھ لوگ ایمبولنس کے انتظام کے لیے پیچ و تاب کھا رہے تھے ۔میں بڑا حیران ہوا اور سوچنے لگا کہ شاید انسانیت محض کیمرے میں حادثات کو قید کرنے کے نام تک محدود رہ گئی ہے۔ چونکہ میں بھی اسی بھیڑ کا حصہ تھا اور مجھے ذاتی اور مجبوری کام سے جلدی شہر پہنچنا تھا لہٰذا میں بھی اس نوجوان کی کوئی مدد نہ کر سکااور میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کے شہر کی طرف روانہ ہوا۔
گاڑی چلاتے ہوئے ہوئے میرا دھیان اس نوجوان کی طرف تھا, جو شاید اب تک مرچکا ہوگا۔ اچانک میں نے شاہراہ پر ایک جگہ ایک کتے کو زور زور سے بھونکتے ہوئے دیکھا۔پاس پہنچ کر میں نے دیکھا کہ ایک کتے کا بچہ خون میں لت پت پڑا ہےاور وہ شاید مر چکا تھا ۔اس کی ماں بھونک بھونک کر بے حال ہو چکی تھی اور اس کے بھونکنے سے اور بھی کتے آس پاس جمع ہورہے تھے۔ شاہراہ پر متعدد گاڑیاں رواں دواں تھیں لیکن کسی نے بھی رکنے کی زحمت گوارا نہ کی کیونکہ بیچ سڑک پر کسی انسان کی نہیں بلکہ ایک کتے کے بچے کی لاش پڑی تھی جس کی ماں ہر آنے جانے والے سے شاید یہی شکایت کررہی تھی کہ اس کے بچے کو کس نے اور کیوں مارا۔ کیا پتا وہ مارنے والے کو بد دعائیں ہی دے رہی ہو۔ کچھ پتا نہیں۔ مگر اتنا ضرور تھا کہ اس کے عجیب طرح سے بھونکنے سے دل دہل سا جاتا تھا۔
میں نے گاڑی کو سڑک کی ایک طرف روکا اور نیچے اتر کر سڑک پر پڑے مردہ کتے کے بچے کی طرف جانے لگا۔ کتیا نے تھوڑی دیر کے لیے بھونکنا بند کر دیا ۔ شاید اسے لگا کہ یہ انسان میرے بچے کو اٹھا کے زندہ میرے پاس لائے گا۔ میں نے جیسے ہی خون میں لت پت پِلے کے جانب اپنے قدم بڑھائے تو ایک تیز رفتار کار نے کتے کے بچے کو بری طرح روندھ ڈالا ۔کتیا نے آسمان پھاڑنے کے انداز میں بھونکنا شروع کیا اور میری طرف وحشتناک اور غضبناک انداز میں دوڑنے لگی۔ اسکی دیکھا دیکھی میں درجنوں اور کتے میری جانب لپکنے لگے۔ وہ سارے مجھ پر حملہ کرنے والے تھے ۔
میں ہڑبھڑاہٹ اور خود کو بچانے کی فکر میں اپنی گاڑی کی جانب انتہائی تیزی سے لپکا اور اپنی گاڑی میں سوار ہوا۔ میں نے گاڑی کے شیشے بند کیے اور گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کتے کے بچے کے چھوٹے چھوٹے حصے شاہراہ پر پوری طرح سے دور دور تک بکھر چکے تھے اور کچھ حصہ شاہراہ پر چپک گیا تھا ۔ میں نے دیکھا اور محسوس کیا اس کتے کے بچے کی ماں اور درجنوں کتے میری گاڑی سمیت سینکڑوں گاڑیوں میں گذر رہے ہزاروں انسانوں پر بھونک رہے تھے۔ کچھ معلوم نہیں کہ شاید انسانیت پر ہی بھونک رہے ہوں۔
���
اکنگام، انت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛9971444589