صداقت علی ملک
جموں کے ایک دور افتادہ گاوں میں ایک قبائلی لڑکا اپنے سر پر گوبر کی بھری ہوئی ٹوکری رکھے کھیتوں کی طرف جاتا نظر آتا ہے ۔ اس کا نام اسلم ہے ۔ اس علاقے میں تعلیم خوابوں جیسی چیز تھی اور زندگی کا دوسرا نام محنت تھا۔ قبیلے کے سارے لوگ محنت کش تھے۔
اسلم کے والد اجمل ایک معمولی کسان تھے جو دن بھر کھیتوں میں کام کرتے اور رات کو تھکے ہارے آ کر ایک پرانی چارپائی پر بیٹھ کر بیڑی سلگاتے۔ اسلم کی ماں شمیمہ، ہاتھ میں جھاڑو لئے کبھی گھر کے صحن میں کام کرتی اور کبھی چولہے کے پاس بیٹھ کر روٹی پکاتی۔ اس کے ساتھ ہی اسلم کی بہن رشیدہ تھی، جو چھوٹی تھی مگر بڑی ذمہ دار تھی۔
گاؤں میں اسکول تو تھا مگر غربت کے مارے زیادہ تر بچے پڑھائی چھوڑ کر کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔ اسلم کے ہاتھ میں کتابوں کے بجائے گوبر کی ٹوکری ہوتی تھی، جسے وہ صبح سویرے کھیتوں تک لے جاتا تاکہ جانوروں کا فضلہ کھاد میں تبدیل ہو سکے اور زمین زرخیز بنے۔
جب اسلم آٹھویں جماعت میں پہنچا تو اسکول کی فیس بھرنا مشکل ہوگیا۔ وہ اسکول جاتا تو والدین کے ہاتھ تنگ پڑ جاتے اور اگر کام کرتا تو تعلیم چھوٹ جاتی۔ آخر کار، فیس نہ بھرنے کے باعث اسے اسکول چھوڑنا پڑا۔
ایک دن استاد رشید ، جو گاؤں کے اسکول میں اردو پڑھاتے تھے، راستے سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے اسلم کو سر پر گوبر کی ٹوکری اٹھائے دیکھا۔ وہ رک گئے اور اسلم کو غور سے دیکھتے رہے۔ پسینے سے شرابور اسلم جب کھیت کے کنارے پہنچا تو استاد نے محبت سے پکارا،
“بیٹا، تم اسکول کیوں نہیں آتے؟”
اسلم نے نظریں جھکا لیں۔ وہ کیا کہتا؟ غربت کی زبان ہوتی تو شاید وہ سب کچھ بتا دیتی۔ پھر ہچکچاتے ہوئے بولا،
“استاد جی، میرے پاس کتابوں کے پیسے نہیں ہیں، فیس نہیں بھر سکتا، اس لئے…”
استاد نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوئے بولے،
“پیسوں کی فکر نہ کرو، بیٹا۔ تم بس پڑھائی پر دھیان دو، خرچوں کی ذمہ داری میری!”
استاد کے تعاون سے اسلم دوبارہ اسکول میں داخل ہوگیا۔ دن بھر کام، شام کو پڑھائی اور رات کو خواب… اس کا یہی معمول بن گیا۔ اس نے دن رات محنت کی اور دسویں جماعت میں پورے ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی۔اس طرح اسلم محنت کرتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔
اب اس کے آگے ایک نیا امتحان تھا۔ اس کا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا، مگر میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ استاد رشید نے پھر ایک بار اس کا ہاتھ تھاما اور گاؤں کے لوگوں سے چندہ جمع کیا۔ سب نے اسلم کے جذبے کو دیکھا تھا، اور اس کی مدد کے لیے تیار ہوگئے۔
کالج کی زندگی اسلم کے لئے آسان نہ تھی۔ شہر کی چکاچوند، بڑی بڑی عمارتیں، اور نئے چہرے… مگر وہ جانتا تھا کہ اگر ہمت ہار دی، تو گوبر کی ٹوکری دوبارہ اس کے مقدر میں آجائے گی۔
وقت گزرتا گیا اور اسلم نے ڈاکٹر بن کر اپنے گاؤں واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے گاؤں کے لوگ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج نہیں کرا سکتے۔ اس نے گاؤں میں ایک چھوٹا کلینک قائم کیا، جہاں وہ غریبوں کا مفت علاج کرتا تھا۔
ایک دن، استاد رشید نے اس کے کلینک کا دورہ کیا۔ اسلم نے جیسے ہی انہیں دیکھا، دوڑ کر ان کے پاؤں چھوئے اور آنکھوں میں آنسو لئے بولا،
“استاد جی، اگر آپ نہ ہوتے، تو میں آج بھی سر پر گوبر کی ٹوکری اٹھائے کھڑا ہوتا!”
استاد کی آنکھیں نم ہوگئیں مگر چہرے پر ایک سکون بھری مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور جیسے دعا کی، “اللہ کرے، ہر غریب اسلم بن سکے۔”
آج بھی اسلم کے گھر میں ایک پرانی گوبر کی ٹوکری پڑی ہے۔ وہ اسے دیکھ کر اپنی ماضی کی مشکلات کو یاد کرتا ہے اور خود کو یہ باور کراتا ہے کہ محنت، ہمت اور استاد کی رہنمائی سے زندگی کے ہر امتحان کو جیتا جا سکتا ہے۔
یہ گوبر کی ٹوکری اس کے لئے غربت کی نہیں، بلکہ کامیابی کی علامت بن چکی تھی!
اسلم کی کہانی ہمیں سکھاتا ہے کہ غربت کبھی بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، اگر انسان کے اندر ہمت، عزم اور سیکھنے کا جذبہ ہو۔ اسلم کی کہانی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک اچھا استاد نہ صرف علم دیتا ہے بلکہ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے۔
گوبر کی ٹوکری… اب صرف ایک چیز نہیں، بلکہ ایک تحریک تھی، جو ہر اس شخص کو یہ سکھاتی ہے کہ کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا بلکہ محنت ہی اصل عظمت ہے!
زندگی کبھی کبھار ایسے امتحان لیتی ہے کہ انسان کی ہمت ٹوٹنے لگتی ہے، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مشکلات کے آگے جھکنے کے بجائے ان کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ کہانی ایک ایسے لڑکے کی ہے جس کی غربت، محنت، اور خوابوں کا سفر “گوبر کی ٹوکری” کے گرد گھومتا ہے۔
���
بلیسہ ڈوڈہ جموں
موبائل نمبر؛7006432002