دنیا کی کوئی بھی معیشت صرف بنیادی شعبے پرنہیں چل سکتی۔ حقیقت میں زراعت سے صنعتوں کی طرف جھکائونے دنیا کے ترقی یافتہ حصوں میں معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی زرعی شعبے سے صنعتی شعبہ کی جانب سفر کی ضرورت کو بہت پہلے محسوس کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں نے صنعتوں کے فروغ میں مدد کے لئے بہت سارے پیکیج مرتب کرنے کی کوشش کی۔ ان مثبت اقدامات کا صنعتوں کیلئے مقصد انفراسٹرکچر ، پیداوار اور مارکیٹنگ سے منسلک مشکلات پر قابو پانا تھا۔بلا شبہ نتائج اب تک حیرت انگیز رہے ہیں۔ پورے ملک میں وہ ریاستیں جو مضبوط صنعتی بنیادبنانے میں کامیاب ہوئی ہیں، اُن کی معیشت اُن ریاستوں سے کافی بہتر ہے جو صنعتی سیکٹر میں پیچھے رہی ہیں۔بدقسمتی سے جموں وکشمیر خاص کر کشمیر صوبہ بھی اس زمرے میں پڑتا ہے جہاں صنعتی شعبہ آج تک پیر نہیں جما سکا ہے اور لاکھ کوششوں و خواہشات کے باوجود یہاں صنعتی شعبہ ابھی بھی کشمیر میں عملی طور وینٹی لیٹر پر ہے جبکہ جموں میںابھی ایام طفولیت میں ہی ہے اور یوں جموں وکشمیر کو صنعتی شعبہ سے ابھی تک وہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکا ہے جس کی امید کی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں ہماری معیشت آج بھی پرائمری سیکٹر یعنی زراعت پر ہی منحصر ہے اور زراعت کا حال یہ ہے کہ زمین سکڑتی چلی جارہی ہے اور باغبانی فصل بلا شبہ بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن میوہ کے بادام گھٹتے چلے جارہے ہیں۔ بڑے طمطراق سے آج تک کئی صنعتی پیکیج اعلان کئے گئے لیکن حالت نہیں بدلی ۔دراصل حقیقت حال یہ ہے کہ یہاں صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے اعلانات تو ضرور ہوئے لیکن زمینی سطح پر صنعتی کے قیام اور ان کے کامیاب آپریشن کو یقینی بنانے میں وقت کی حکومتوں نے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔صنعتیں بجلی پر چلتی ہیں اور یہاں بجلی کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔کشمیر کے بیشتر صنعتی یونٹ صرف اس وجہ سے خسارے پر چلتے ہیں کیونکہ اُنہیں متواتر بجلی فراہم نہیںہوتی اور اس کے علاوہ انہیں خام مال باہر سے مہنگا پڑتا ہے ۔آج بھی بجلی کی حالت یہ ہے کہ صنعتی بستیوںکو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم نہیں ہوتی ہے اور یوں ان کارخانوں کو بجلی کا متبادل انتظام کرنے کیلئے بھاری ڈیزل جنریٹرلگانے پڑتے ہیں جس کے نتیجہ میں پیداواری قیمت بڑھ جاتی ہے اور پھر مارکیٹ میں مقامی صنعتی مصنوعات کی مانگ نہیں رہتی ہے کیونکہ باہر سے آرہی وہی مصنوعات مقامی مصنوعات کی نسبت کافی سستے داموں میں ملتی ہیں۔اور بھی کئی وجوہات ہیں جو ہمارے بیمار صنعتی سیکٹر کیلئے ذمہ دار ہیںتاہم زیادہ تفاصیل میں جانے کی بجائے وقت کی پکار ہے کہ صنعتی سیکٹر کو واپس پٹری پر لایا جائے تاکہ ہم صنعتی سیکٹر میں دوسری ریاستوں سے مقابلہ کرنے کے اہل بن سکیں۔صنعتی سیکٹر کا فروغ اب یہاں اس لئے بھی ناگزیر بن چکا ہے کہ یہاں سرکاری نوکریوں کے حوالے سے ایک انار ہزار بیمار والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے ۔جب بے روزگاری کا یہ عالم ہو تو حکومت خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی ۔ظاہر ہے کہ ہم اتنے قیمتی سرمایہ کو ضائع نہیں ہونے دے سکتے ۔نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں اور ہمیں ان کی توانائی کو صحیح سمت دینی ہے تاکہ یہ سرمایہ ہماری خوشحالی کا ذریعہ بن سکے ۔بے روزرگاری کے نتیجہ میں ہمارا نوجوان پھریا تو ڈپریشن کا شکار ہوکر ناکارہ بن جاتا ہے یا پھر برے کاموں میں لگ جاتا ہے ۔اسی لئے لازمی ہے کہ ایک قیمتی سرمایہ کو صحیح استعمال یقینی بنایا جائے اور صحیح استعمال سرکاری سیکٹر میں اب ناممکن بن چکا ہے جس کو دیکھتے ہوئے نجی سیکٹر کو فروغ دینا لازمی ہے اور نجی سیکٹر میں صنعتی سیکٹر کو ہی فروغ دینا پڑے گا کیونکہ صنعتی سیکٹر میں ہی لاکھوں لوگوں کو روزگار دینے کی صلاحیت موجود ہے۔اگر یہاں صنعتی سیکٹر پروان چڑھا تو حکومت کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا کیونکہ پھر نوجوانوںکو سرکاری نوکریوںکا انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ وہ نجی سیکٹر میں قسمت آزمائی کریں گے۔ اس وقت ہم صرف ایک ہی بات بتانے کی کوشش کرینگے کہ حکومتی پیکیج کے اثرات وہ لوگ محسوس کرنے چاہئیں جو صنعتیں چلاتے ہیں۔پیکیج پر عمل درآمد کچھ اس طرح ہونا چاہئے کہ زمینی سطح پر صنعتوں کا احیاء یقینی بن سکے کیونکہ اس پیکیج کا مقصد ہی بیمار صنعتی سیکٹر کو واپس پٹری پر لانا ہے اور اگر پیکیج سے وہ حدف حاصل ہوتا ہے تو سمجھ لیاجائے گا کہ پیکیج کامیاب رہا ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ یہ بھی محض خانہ پُری ہی تھی۔