نذیر جنیجو
بلا شبہ مالی غربت سے زیادہ خطرناک ذہنی غربت ہے اور ہم اسی ’’ذہنی غربت‘‘ کا شکار ہیں۔کیا ہم لوگ واقعی غریب ہیں یا ہم نے مُفت کمائی کی رَٹ لگائی ہے کیونکہ حق بات تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میںلوگوں کی زیادہ تر تعداد’’ ذہنی غربت‘‘ میں ہی مبتلا دکھائی دے رہی ہے،جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے ،جو ہر صورت حال میں اپنے معاشرے کےغریب ،پچھڑے ہوئے لوگوںاور پسماندہ طبقات کی مجموعی طور پر امداد کرسکتی ہے ،اور کرنا بھی چاہئے ۔ مگر ایسا نہیں ہورہا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کے صاحبِ ثروت اور صاحب نصاب طبقوں سے وابستہ زیادہ لوگ اسی ’ذہنی غربت ‘کے شکار ہیں،جس کے نتیجے میں وہ بھی اپنے آپ کو غریب یا نادار سمجھتے ہیں اور مفت کمائی کی رَٹ میں شامل رہتے ہیں ۔افسوس ناک اور تعجب خیز بات یہ بھی ہے کہ اس ’’ذہنی غربت ‘‘کی بیماری میں محض نا خواندہ لوگ ہی مبتلا نہیں ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر پڑھے لکھے آسودہ حال لوگ بھی شامل ہیں۔جن کی عقل و شعور کو دیکھ کر بخوبی اس بات کی نشاندھی ہورہی ہے کہ وہ حقیقت میں غریب و لاچار ہرگز نہیں ہیں بلکہ اُن کی سوچ ور اپروچ ’’ذہنی غربت‘‘ کے لاعلاج مرض نے زائل کردی ہے اور وہ اسی بیماری کے باعث اپنے آپ کو غریب سمجھ رہی ہےاور مُفت کی کمائی میں دلچسپی رکھتی ہے۔
آجکل کے اس دور میں جب بھی غریبی اور معاشرتی مسائل پر بات ہو جاتی ہے،تو ہم فوراً مالی غربت کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی صورت حال پر طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات نمایاں طور پر سامنے آجاتی ہے کہ معاشرے میں بڑے پیمانے پر ’’ذہنی غربت ‘‘رچ بَس چکی ہے اور یہ وہ غربت ہے جومختلف موقعوں پر ہمارے اندرون سے باہر آتی جاتی رہتی ہے،گویا یہ بیماری اس قدر شدت اختیا ر کرچکی ہے کہ معاشرے کے ایک کثیر تعداد کی حقیقی زندگی ہی مسخ کرچکی ہے۔
اسی مسخ شدہ زندگی سے جڑے ہوئے کئی مناظر رمضان المبارک کے مہینے میں سامنے آجاتے ہیں۔ ایک منظر غالباً رمضان کے ستائیسویں روز میری آنکھوں کے سامنے آیا ہے، جس نے مجھے اس حقیقت سے پھر آشنا کیا کہ ہمارے معاشرے میں’ ذہنی غربت‘ کی بیماری کااثر کس قدر عذاب دہ ، خطرناک اور تباہ کن بن چکا ہے۔شام کے چھ بج رہے تھے، میں اپنی بائیک پر سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک سفید رنگ کی ٹائیوٹا گاڑی پر پڑی، جو دائیں جانب سے آ کر بائیں طرف مڑنے والی تھی۔ مگر اصل منظر وہ نہیں تھا،اصل منظر وہ پندرہ بیس لوگ تھے جو اس گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے اور ان میں ایک فرد بھی مقامی نہیں لگتا تھا، جیسے ان کی زندگی کا سب سے قیمتی خزانہ بس چند قدم دور تھا۔اگرچہ ان کے چہرے اور لباس غربت کی واضح تصویر تھے، مگر اُن کی آنکھوں میں بھاگنے کی وحشت کسی اور ہی داستان کی طرف اشارہ کر رہی تھی، گویا یہ لوگ غریب بھی ہیں ،لاچار بھی ہیں، نادار بھی ہیں، لالچی بھی ہیں، چالاک بھی ہیں اور تو اور یہ جان بوجھ کر کسی اور کام کے لئے سر راہ سارا ہنگامہ برپا کر رہے ہیں۔ گاڑی کے قریب پہنچنے کی تگ و دو میں کچھ لوگ ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے، کچھ زمین پر لڑکھڑا رہے تھے، کوئی لاتوں کے نیچے روندھا جارہا تھا مگر کسی کے قدم رُک نہیں رہے تھے۔جیسے ہی گاڑی ایک لمحے کے لیے رُکی، ایک خاتون نے شیشہ نیچے کر کے ہاتھ باہر نکالا۔ اس ہاتھ میں بچوں کے ریڈی میڈ سوٹ تھے۔ لیکن اگلے ہی لمحےجو منظر میرے سامنے تھا، وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ لوگوں نے بے دردی سے ایک دوسرے سے کپڑے چھیننے کی کوشش کی، جیسے یہ بچوں کے ریڈی میڈ کپڑے ہی اُن کی زندگی کی آخری اُمید ہو۔ کسی کے ہاتھ میں آدھا کپڑا تھا، کسی کا بازو کسی اور کی گرفت میں تھا اوران سبھوں میںایسا جنون سوار ہوا تھا کہ لگ رہا تھا جیسے وہ انتہائی شدت کی بھوک سے تڑپ رہے ہوںیا ان کی زندگی کے لئے یہ کپڑے آخری خواہش تھے۔ مجھے اُس وقت بخوبی اس بات کا احساس ہوا کہ یہ صورت ِحال محض مالی غربت کا نتیجہ نہیں بلکہ’’ ذہنی غربت‘‘ کی دلیل ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ آپ نے بھی ضرور دیکھا ہوگا کہ جب کہیں کچھ مفت بانٹا جا رہا ہو، یا کوئی نیاز وغیرہ ہو تو ہم لوگ کس طرح بے دریغ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ رمضان میں سڑکوں پر افطار کے وقت کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی جاتی ہیں اور تب یہ منظر عام ہوتا ہے،لوگ جو پہلے سے کھانے کا انتظام کر چکے ہوتے ہیں، وہ بھی رُک کر مزید لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک لمحے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے برابر کوئی ایسا شخص بھی کھڑا ہے، جسے واقعی ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو نہ صرف حیران کن بلکہ افسوسناک بھی ہوتا ہے۔ جب میں نے اس روز وہ منظر دیکھا، تو میرے ذہن میں ایک سوال اُبھرتا ہے کہ یہ کون سی وہ صورت ِحال ہے جو معاشرے کو اس قدر بے پرواہ اور خودغرض بنا دیتی ہے؟ غربت محض کمزور مالی حالت کا نام نہیں بلکہ ہماری ذہنیت کی بھوک کا بھی ایک روپ ہےاوریہ بھوک جو ہمارے عقل و شعور میں جگہ بنا چکی ہے،ہماری معاشرتی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہورہی ہے۔افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ اب ’’ذہنی غربت‘‘کی یہ صورت حال ہمارے معاشرے کی روزمرہ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ جہاں کہیں بھی کوئی چیز مفت تقسیم ہورہی ہوتی ہے تو لوگ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے یہ ان کی زندگی کی آخری اُمید ہو۔بعض اوقات تو صورتحال اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ تقسیم کرنے والا خود کو بڑی مشکل سے بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ’ذہنی غربت ‘ کا شکارہجوم اس پر ایسے حملہ آور ہونے لگتا ہے،جیسےکوئی بھوکے درندے ہوتے ہیں۔جس سے بخوبی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ محض پیٹ کی بھوک نہیں بلکہ عقل و شعور کی تنگ دستی ہے۔گویا ایک ایسی تنگ نظری ،جس میں لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ لینے کے لیے دوسروں کی محرومی کا کبھی خیال رکھتے ہی نہیں۔یہ وہ غربت ہے جو خالی جیبوں سے زیادہ، خالی ذہنوں میں پائی جاتی ہے، جو کسی بھی قوم کو صرف مالی طور پر نہیں بلکہ اخلاقی اور فکری طور پر بھی برباد کر دیتی ہے۔ قارئیں کرام آپ نے وہ مناظر دیکھے ہوں گے،جہاں خیرات بٹ رہی ہو، جہاں کوئی مفت چیز تقسیم ہو رہی ہو اور لوگ اس پر اس وحشت ناک طریقے سے جھپٹتے ہیں ،جیسے اس کا حصول زندگی اور موت کا سوال ہو، چاہے ان کے پاس پہلے ہی سب کچھ موجود بھی ہو۔جس سے اس بات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ یہ بھوک پیٹ کی نہیں، آنکھوں کی، ضمیر کی اور سوچ کی بھوک ہے۔ یہ وہ ہوس ہے جو ہاتھوں کو پھیلا کر لینے پر مجبور کرتی ہے، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ کس کی ضرورت کس قدر زیادہ ہے۔چنانچہ جب حلال و حرام، عزت و بے غیرتی اور ضرورت و لالچ کے فرق مٹنے لگیں تو سمجھ لیں کہ مسئلہ غربت کا نہیں بلکہ یہ ذہنی دیوالیہ پن کا ہے۔
بے شک غربت ایک آزمائش ہو سکتی ہے، مگر ذہنی غربت ایک لعنت ہے اور شدید قسم کا ذہنی مرض ہے۔ یہ وہ زنجیر ہے جو انسان کو ہمیشہ محتاج رکھتی ہے، چاہے اس کے پاس دنیا بھر کی دولت کیوں نہ ہو۔ جس دل میں قناعت نہ ہو وہ ہمیشہ خالی رہتا ہے۔ جس آنکھ میں ہوس بسی ہو، اُسے کبھی آسودگی نصیب نہیں ہوتی۔ انسان کے لئے غلامی کی یہ بدترین شکل ہے، اپنی خواہشات کی، کمزوریوں کی اور لالچ کی۔
ذرا غور کریں کہ ہم سب ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مالی خوشحالی کے لئے دعا تو مانگتے رہتے ہیں، مگر ذہنی غربت سے نجات کی دعا کیوں نہیں مانگتے؟ کیونکہ اصل قید وہ نہیں جو جسم پر پڑتی ہے، بلکہ وہ ہے جو سوچ کو جکڑ لیتی ہے۔ اگر ہم حقیقت میں سکون، عزت اور خوشحالی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی ذہنی بھوک کو ختم کرنا ہوگا،اس وحشت کو مٹانا ہوگا جو ہمیں اندھا، بہرا اور بے حس بنا چکی ہے۔ ہمیں اپنے اِرد گرد ایک طائرانہ نگاہ دوڑانی چاہیے کہ کہیں کوئی مجھ سے زیادہ ضرورت مند تو نہیں ہے، کم سے کم جس کی میں مدد کرسکتا ہوں تاکہ ہمارے معاشرے سے یہ ذہنی مرض کافی حد تک ختم ہو سکے اور ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ ہوسکتا ہے کہ میرا پڑوسی اتنا خود دار ہو کہ بھوکا،پیاسا اور نادار ہونے کے باوجود وہ کسی کے آگے ہاتھ پھلانے میں شرمندگی محسوس کر رہا ہو ۔یاد رکھیں کہ روزِ محشر اللہ تعالیٰ ہم سے کسی کی عبادات یا کسی کے دین و دھرم کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرے گا مگر ہمارے لاچار اور تنگ دست پڑوسی یا رشتہ دار کے متعلق ضرور پوچھے گا کہ ہم نے اس کے لئے کیا کیا ہے؟
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیںاپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کے حقوق بھی بتلائے ہیں اور اُن غریب ناداروں اور مسکینوں کی چارہ جوئی کی احادیث بار بار تلقین فرمائی ہے ،یہاں تک کہ اگر آپکے گھر میں کوئی بھی ساگ یا سالن پکے تو اسکا تڑکا ایسے کریں کہ پاس پڑوس میں اسکی آواز یا مہک نہ جائے ۔ صحابہ کرام ؓ کا وہ واقعہ ،جب بکرے کا سر ایک صحابیؓ کے پاس پہنچتا ہے تو وہ فوراً اُس کو دوسرے صحابیٔ رسولؐ کے پاس بھیجتا ہے اور وہ دوسرا صحابی اسی طرح سے تیسرے کے پاس یہاں تک کہ بکرے کا سر پھر سے پہلے صحابی کے پہنچتا ہے۔ یہ تھا انسانیت کا وہ سبق جو پیغمبر آخرالزماںؐ نے رہتی دنیا تک ہر ایک معاشرے کے لئے مشعل راہ بنا رکھا تھا، مگر آجکل کا یہ اشرف المخلوقات پتہ نہیں کس تباہی کی طرف گامزن ہے۔ ہاں! اب بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک اور سچے بندے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، تبھی تو سورج ،چاند،دن اور رات اپنے اپنے وقتِ مقررہ پر نمودار ہوتے ہیں۔ معاشرے کا ہر ذی ہوش فرداگر یہ بات اپنے من میں بٹھالیں کہ میری وجہ سے میرے پاس پڑوس کے رہنے والے اللہ تعالیٰ کے بندے تھوڑی سا رزق حاصل کرتے ہیں جو ہم سب کو ہمارے رزاق نے عطا کیا ہے تو ہمارے رزق میں کس قدر اضافہ ہوتا رہےگا کیونکہ رزق دینا تورزاق کا ہی کام ہے اور اُس رزاق کے کام کی تھوڑی سی نقل میں بھی کرتا ہوں ۔اللہ ہمیں خالی جیبوں سے ، خالی دلوں اور خالی ذہنوں کی غربت سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ یہی وہ غربت ہے جو تباہ و برباد بھی کرتی ہے، اور ذہنی طور پر پامال بھی کرتی ہے ۔ انسانیت کے ڈھانچے کومسمار کردیتی ہے اور سماج میں بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے، جس کی بہت سی مثالیں آئے دن ہماری نظروں کے سامنے ظاہر ہوتی ہیں ۔ انسان کے لئےذہنی غربت سے بچنا اصل نجات ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ذہنی مرض سے نجات دے ۔ آمین