بائسرن پہلگام میں آج جو کچھ ہوا ،وہ بربریت کی بدترین مثال کے سوا کچھ نہیں ہے۔نہتے سیاحوں پر حملہ کسی بھی طور جسٹیفائی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔یہ سیاح فطرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے پہلگام گئے ہوئے تھے ۔انہیں کیا معلوم تھا کہ پہلگام کی بائسرن وادی ان کیلئے اجتماعی قبرستان بن جائے گی ۔بتایا جاتا ہے کہ اردو بول رہے دس مسلح دہشت گردوں نے سیاحوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے ان پر اندھا دھند گولیاں چلائیں اور انہیں خون میں ڈبو دیا ۔
کشمیر میں اس سے قبل بھی ایسے کئی سانحات رونما ہوئے ہیں جن میں درجنوں انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں لیکن ماضی قریب میں اس طرح کے کئی واقعہ کی کوئی مثال نہیں مل رہی ہے۔یہاں بالکل امن و شانتی تھی اور سیاحتی سیزن عروج تھا ۔ملک کے کونے کونے سے سیاح یہاں آرہے تھے اور کشمیر کے گوشے گوشے میں فطرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہورہے تھے جس سے یہاں کی معیشت کا پہیہ چل رہا تھا اور لوگ اپنا روزگار کما رہے تھے ۔بڑی مدتوں بعد کشمیر کا ہر فرد ہشاش بشاش نظر آرہا تھا اور مایوسیوں کے بادل چھٹ رہے تھے اور امیدوں کے چراغ روشن ہورہے تھے لیکن پہلگام سانحہ نےسب کچھ تہس نہس کردیا ۔
پہلگام میں جس طرح انسانی خون کی ہولی کھیلی گئی ،اُس نے سب کو لرزہ براندام کردیا ہے اورہر ذی حس روح کو اشکبار کردیا ہے۔اس وقت ہر آنکھ نم ہے اور ہر دل ملول ہے اور کیوں ہے ۔ایسا ہی کچھ ہوا ہے ۔کیا موت کے ان سودا گروں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر ان سیاحوں کا کیا قصور تھا کہ اُنہیں اس حسین وادی میں یوں ابدی نیند سلا دیا گیا؟۔کیا ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر اس درندگی کا مظاہرہ کرکے اُن کے کس مقصد کی تکمیل ہوئی ہے ؟۔متمدن معاشروں میں اختلافات کی گنجائش کی موجود ہے اور اختلافات ہونے بھی چاہئیں لیکن اختلافات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آخر سر اتارنے پر آجائیں ۔
معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ نے نئی دہلی میں اپنی تمام تر مصروفیات ترک کیں اور وہ سرینگر پہنچ گئے جہاں سے سیدھے پہلگام گئے اور وہ بذات خود ریسکیو آپریشن کی نگرانی کررہے ہیں جبکہ وسیع پیمانے پر اس انسانیت سوز واقعہ کی مذمت ہورہی ہے ۔کشمیر میں شام ہوتے ہوتے ہر جگہ اس سانحہ کے خلاف برہمی کا اظہار کیا گیا جو نفرت کا فطری کا اظہار ہے کیونکہ کشمیری عوام فطرت میں امن پسند ہے اور وہ قطعی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی سرزمین پر یوں معصوموں کا خون بہایا جائے ۔کشمیری لوگ خود تشدد کے طویل عرصہ تک شکار رہے ہیں اور انہوںنے طویل عرصہ اس کو خود سہا ہے ،اس لئے وہ قطعی نہیں چاہیں گے کہ کوئی اور اُن کی طرح اس درد سے گزرے جس درد سے ان کا گزر ہوا ہے۔
دنیا کا کوئی مذہب اس طرح کے قتل عام کی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام کے نام پر ایسی وحشت ناکی کرنے والے قطعی اسلام کے پیروکار نہیں ہوسکتے ہیں اور ان کا اسلام سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا ہے۔جہاد کے نام پر اللہ کی زمین پر فساد بپا کرنے والے ایسے عناصر کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ بربریت اُنہیں کہیں نہیںلے جائے گی بلکہ اس کی منزل تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگی ۔بدلتے حالات میں ان مٹھی بھر عناصر کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ صرف گھروں کو اجاڑنے کا ہی باعث بن جاتا ہے ۔
وقت آچکا ہے جب ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرأت پیدا کرنی چاہئے ۔بائسرن پہلگام میں انسانیت تارتار کی گئی ،بربریت کی انتہا کی گئی اور اس بربریت کو کوئی جواز فراہم نہیں کیاجاسکتا ہے بلکہ اس کی جتنی مذمت کی جائے ،کم ہے ۔