مسعود محبوب خان
جب دنیا تجارتی جنگوں اور اقتصادی مفادات کی اندھی دوڑ میں مصروف ہو کر کمزور اقوام کے وسائل پر قبضے کی کوشش کرتی ہے، تب اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ معیشت کا اصل مقصد انسانی فلاح، باہمی تعاون اور ضرورت مندوں کی اعانت ہے، نہ کہ صرف طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفّظ۔ آج جب دنیا کے بڑے طاقتور ممالک بالخصوص امریکہ، تجارتی محصولات کے ذریعے دوسروں کو معاشی طور پر دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو یہ رجحان عالمی امن و استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اس مضمون میں ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور اس سے پیدا ہونے والی ممکنہ عالمی تجارتی جنگ کا تجزیہ کریں گے اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح ان اقدامات نے عالمی اقتصادی نظام کو عدم توازن اور عدم استحکام کا شکار بنایا اور کس طرح اسلام ان مسائل کا ایک متوازن اور انسان دوست حل پیش کرتا ہے۔
جب دو یا زیادہ ممالک اپنی تجارتی پالیسیوں کو ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار بنا کر معاشی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے تجارتی جنگ (Trade War) کہا جاتا ہے۔ یہ کشمکش اس وقت جنم لیتی ہے جب ایک ملک دوسرے ملک کی درآمدات پر اضافی محصولات (Tariffs) یا دیگر تجارتی پابندیاں عائد کرتا ہے، جس کے جواب میں دوسرا ملک بھی اسی نوعیت کے اقدامات کر کے اپنی معیشت کا دفاع کرتا ہے۔
تجارتی جنگ کے بنیادی اسباب میں تجارتی خسارہ نمایاں ہے، جہاں ایک ملک درآمدات کی زیادتی کے باعث تجارتی پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ مقامی صنعتوں کے تحفّظ کے لیے حکومتیں غیر ملکی مسابقت کے خلاف محصولات نافذ کرتی ہیں۔ سیاسی و جغرافیائی تنازعات بھی تجارتی جنگ کو جنم دے سکتے ہیں، جہاں قومی سلامتی یا سفارتی اختلافات کی بنا پر تجارتی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ علاؤہ ازیں، ڈمپنگ کے نتیجے میں متاثرہ ملک اپنی صنعت کے دفاع میں جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ یوں یہ جنگ معاشی اور سیاسی عوامل کے تحت ابھرتی ہے جو عالمی معیشت پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔
تجارتی جنگ کے اثرات معیشت کے مختلف پہلوؤں پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ درآمدات پر زیادہ ٹیکس سے مہنگائی بڑھتی ہے، جس کا براہ راست اثر صارفین پر پڑتا ہے۔ برآمدی صنعتیں بھی متاثر ہوتی ہیں کیونکہ جوابی اقدامات سے ملکی مصنوعات کی برآمدات میں کمی آ سکتی ہے۔ عالمی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات ہوتے ہیںکیونکہ سرمایہ کاری محدود اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ عوام پر دباؤ بڑھتا ہے، روزمرّہ کی اشیاء مہنگی ہوتی ہیں اور روزگار کے مواقع کم ہو سکتے ہیں۔ یوں تجارتی جنگ نہ صرف دو ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھاتی ہے بلکہ عالمی معیشت کو بھی عدم استحکام کا شکار کر دیتی ہے۔
تجارتی جنگ کی تاریخ میں کئی نمایاں مثالیں موجود ہیں، جن میں امریکہ ۔چین تجارتی جنگ (2018ء-2020ء) سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہے۔ اس دوران امریکہ نے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کئے، جس کے ردّعمل میں چین نے بھی امریکی اشیاء پر سخت تجارتی پابندیاں لگا دیں۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں دونوں معیشتیںبُری طرح متاثر ہوئیں اور عالمی منڈی میں بھی غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان تجارتی تنازعات بھی وقتاً فوقتاً دیکھنے میں آئے ہیں۔ مختلف مواقع پر اسٹیل، ایلومینیم اور دیگر مصنوعات پر محصولات عائد کیے گئے، جس سے دونوں خطوں کے تجارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور کاروباری ماحول متاثر ہوا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹیرف پالیسی نے عالمی مالیاتی منڈیوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے، جہاں کساد بازاری کا خوف بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی تجارتی نظام عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے، ’’ٹیرف‘‘ ایک اندرونِ ملک عائد کیا جانے والا ٹیکس ہوتا ہے جو بیرونِ ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامانِ تجارت پر لگایا جاتا ہے، اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی سے پیچھے ہٹنے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ عالمی منڈیوں کے کریش ہونے کے خواہش مند نہیں، تاہم وہ بڑے پیمانے پر ہونے والی سیل آف (Sell-off) کے بارے میں زیادہ فکر مند بھی نہیں ہیں۔ ان کے بقول، ’’کبھی کبھار کسی چیز کو ٹھیک کرنے کے لیے (کڑوی) دوا لینی پڑتی ہے۔‘‘ یوں، ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نہ صرف امریکی معیشت بلکہ عالمی مالیاتی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے اور سرمایہ کاروں میں غیر یقینی کی لہر دوڑا رہی ہے، جس سے مارکیٹ کے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹرمپ نے اسے ریاستہائے متحدہ کے لیے اقتصادی آزادی کا دن قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ واشنگٹن تمام ممالک پر 10فیصدسے لے کر 49فیصدتک کے ٹیرف عائد کرے گا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ اقدام باہمی عمل و ردعمل کے اصول پر مبنی ہے اور اس سے امریکی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ ٹرمپ نے واضح کیا کہ محصولات کا استعمال امریکی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے کیا جائے گا اور یہ اقدام ’’امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنا دے گا۔‘‘
ٹرمپ نے اپنے نام نہاد ’’یومِ آزادی‘‘ منصوبے کے تحت باہمی محصولات (Reciprocal Tariffs) کی ایک نئی اور بڑی لہر کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ایک ممکنہ تجارتی جنگ کے خدشات جنم لینے لگے۔ اس پالیسی پر دنیا کے کئی ممالک نے مایوسی کا اظہار کیا اور جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا۔ اس پالیسی کے تحت تمام درآمدات پر کم از کم 10فیصدکا بیس ٹیرف (Base Tariff) نافذ کیا گیا، جب کہ امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں پر اس سے بھی زیادہ بھاری محصولات عائد کئےگئے۔ اس پیش رفت نے عالمی تجارتی نظام میں بے یقینی پیدا کر دی اور بین الاقوامی اقتصادی تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا۔ٹرمپ کے نئے ٹیکسوں نے عالمی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچا دی، دو دن میں سرمایہ کاروں کے 60؍ کھرب ڈالر ڈوب گئےاور امریکی اسٹاک مارکیٹ 1500؍ پوائنٹس گر گئی۔ یہ بحران عالمی سطح پر پھیل گیا، تجارتی جنگ کے خدشات بڑھنے لگے، اور چینی مصنوعات کو یورپی منڈیوں میں جگہ ملنے لگی۔ ٹرمپ نے ہندوستان سمیت کئی ممالک پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جس سے اقتصادی بے یقینی مزید گہری ہوگئی۔
’’عالمی تجارتی جنگ اور امریکی ٹیرف‘‘ کی پالیسیوں نے ایشیائی اور خلیجی اسٹاک مارکیٹس کو شدید متاثر کیا۔ امریکا نے مختلف ممالک پر مختلف شرحوں سے ٹیرف عائد کیے، جن میں یورپی یونین، چین، جاپان، بھارت، اسرائیل، برطانیہ، پاکستان اور بنگلا دیش شامل ہیں۔ تقریباً ہر خطہ اس پالیسی کی زد میں آیا، حتیٰ کہ وہ غیر آباد جزائر بھی متاثر ہوئے جہاں صرف پینگوئنز رہتے ہیں۔ تاہم، روس پہلے ہی امریکی تجارتی پابندیوں کا شکار ہونے کے باعث اس فہرست میں شامل نہیں۔
’’ہینڈز آف‘‘ احتجاجی تحریک ٹرمپ اور ایلون مسک کے خلاف امریکا سمیت کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، پرتگال اور میکسیکو کے 1200؍ سے زائد مقامات پر مظاہروں کی صورت اختیار کر چکی ہے، جس میں برلن، پیرس اور لندن جیسے شہروں میں امریکی شہریوں نے بھی بھرپور شرکت کی۔ یہ احتجاج صرف اقتصادی پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ شہری حقوق کی تنظیمیں، مزدور یونینیں اور دیگر ادارے بھی ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں، تجارتی محصولات، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں اور مسک کی قیادت میں وفاقی ملازمتوں میں کمی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ ان پالیسیوں سے عالمی سطح پر معاشی و سماجی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے، اور بعض نے مسک کی ملک بدری کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ تحریک عوامی حقوق اور انصاف کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے، جو عوامی مفادات کے تحفّظ پر زور دیتی ہے۔
آئی ایم ایف کے سربراہ نے ٹرمپ کے ٹیرف میں اضافے کو عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے امریکا کو اپنے تجارتی شراکت داروں سے تعاون کا مشورہ دیا۔ عالمی رہنماؤں نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ اقدام تجارتی تعلقات اور معیشت کے استحکام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یورپی یونین نے امریکا کو زیرو ٹیرف معاہدے کی پیشکش کی، مگر ساتھ ہی جوابی اقدامات کی تیاری بھی کر لی۔
چین اور دیگر ممالک کے جوابی ٹیرف سے تجارتی جنگ اور معاشی بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم نے اسے عالمی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیا، جب کہ فرانس کے صدر میکرون نے ان پالیسیوں کو ’’ظالمانہ اور بے بنیاد‘‘ کہہ کر سخت تنقید کی، جو خود امریکی معیشت کے لیے بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتی ہیں۔ عالمی برادری کے ان خدشات سے واضح ہوتا ہے کہ معاشی پالیسیوں میں غیر ذمّہ دارانہ فیصلے نہ صرف بین الاقوامی تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ پوری دنیا کے اقتصادی ڈھانچے کو متزلزل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اسلام کا معاشی نظام عدل، توازن اور باہمی خیر خواہی پر مبنی ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہدایات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ معیشت صرف نفع و نقصان یا طاقت کے اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک ایسی امانت ہے جس کے ذریعے انسانی فلاح، معاشرتی استحکام اور عالمی برادری کے درمیان امن قائم ہونا چاہیے۔
تجارتی جنگ اور ظالمانہ ٹیرف پالیسیاں جن کا مقصد دوسرے ملکوں کو دبانا اور اپنے مفادات کو ہر حال میں ترجیح دینا ہو، اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں۔ اسلام کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرتا جو معاشی عدم توازن پیدا کرے، غریب اقوام کو مزید کمزور کرے، یا عالمی سطح پر کشمکش اور بداعتمادی کو ہوا دے۔
اسلام عالمی معیشت کو تعاون، ہمدردی، اور منصفانہ تجارتی اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام میں ’’نہ خود نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی دوسرے کو نقصان دو‘‘ کا اصول معاشی میدان میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ لہٰذا موجودہ تجارتی جنگیں اور ٹیرف جیسے اقدامات جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا عالمی طاقت کے مظاہرے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، وہ صرف اقتصادی بحران کو جنم دیتے ہیں بلکہ دنیا میں ناانصافی، غربت اور بداعتمادی کو بڑھاتے ہیں۔ اسلام اس طرزِ عمل کو سخت ناپسند کرتا ہے اور ایک ایسے معاشی نظام کی تلقین کرتا ہے جس میں توازن، عدل اور باہمی فلاح کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ عالمی تجارت کو ایک ایسی راہ پر گامزن ہونا چاہیے جہاں طاقت نہیں بلکہ انصاف، خود غرضی نہیں بلکہ خیر خواہی، اور منافع نہیں بلکہ مساوات اور بھائی چارہ غالب ہو۔ یہی وہ معاشی اخلاقیات ہیں جن کی آج کی دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]
������������������