پرویز احمد
سرینگر //انٹرنیٹ کی ایجاد نے جہاں پوری دنیا کو ایک ’گلوبل ولیج‘ میں تبدیل کیا ہے اور اب نہ صرف بیرون ممالک اور ریاستوں کے ساتھ رابطے کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔انٹرنیٹ کی وجہ سے جہاں آن لائن تجارت بلندیوں کو چھورہی ہے تاہم اس کے منفی اثرات پوری دنیا کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی سامنے آنے لگے ہیں ۔ کئی دکاندار اپنی روزی روٹی آئے روزگنوا رہے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال لالچوک میں قائم 45سال کے کتب فروش کی ہے جس نے اپنی دکان ہی اب بند کردی۔’ بیسٹ سیلر ‘ نامی یہ کتب فروش سال 1980میں مرحوم ثناء اللہ چلو نے لالچوک میں ایک چھوٹی سی دکان سے شروع کیا تھا ۔ اس دکان میں اردو، کشمیری ،انگریزی زبانوں میں کتابیں دستیاب ہونے کے علاوہ مذہبی کتابیں اور سٹیشنری بھی دستیاب ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثناء اللہ نے اپنی اس دکان میں اردو اور انگریزی زبان میں مقامی اور بین الاقوامی سطح کے قلمکاروں کی تصانیف کو بھی پڑھنے والوں کیلئے دستیاب رکھا۔ سال 2017میں پونے سے ایم بی اے کی سند حاصل کرنے والے ثنا ء اللہ کے فرزند سنی یسنسن نے وراثتی تجارت کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا اورایک کونے میں موجود کتابوں کی دکان کو نئی نسل کے مزاج کے مطابق بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے۔ یسنین نے دکان میں نہ صرف بین الاقوامی سطح پر مشہور قلم کاروں کی تصانیف کو دستیاب کرایا بلکہ اسلامی تاریخ کے علاوہ افسانوں اور غیر افسانوی کتابیں بھی دستیاب رکھیں ۔ اس کے علاوہ مارچ 2024میں سنی یسینین نے کتابوں کو’کلو گرام ‘ کے حساب سے فروخت کرنے کے خیال کو متعارف کرایا تاکہ کشمیریوں کو سستے داموں پر کتابیں دستیاب ہوں۔انہوں نے کہا ’’کشمیر سے باہر آن لائن تجارتی پلیٹ فارموں جیسے ایمیزون پر سستے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرزعمل سے کتابیں تمام لوگوں خاص کر محدود ذرائع والے طلبہ تک جلد پہنچ جاتی ہیں لیکن دکاندار دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ تمام کوششوں کے باوجود بھی دکان کو چلانا مشکل بن گیا تھا ، یہ دیگر دکانداروں کے ساتھ تجارتی مقابلے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اب کتابیں ایک کلک کرنے پر لوگوں کے گھروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ سنی یسنین نے بتایا کہ یہ صرف کتابوں کا کاروبار ختم نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ ایک زمانہ ختم ہوگیا ۔ ’ بیسٹ سیلر‘ اب ختم ہوگیا ، ان کی شلفیں خالی پڑی ہیں لیکن اس کی یادیں کتابیں پرھنے والوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔