پیاس
اب سے قریب قریب پچاس برس قبل جب ہم اپنے پرانے محلے کے پرانے مکان میں رہتے تھے تو ہمارے مکان کے آنگن کی دیوار کے باہر ایک چھوٹی سی گلی میں ایک سرکاری نل ہوا کرتا تھا جو نہ صرف گلی کی جانب آنے جانے والوں کی پیاس بجھاتا تھا بلکہ محلے کی بزرگ خواتین بھی اکثر اپنے گھروں سے باہر آکر اس نل کے پانی سے ہاتھ دھو دھو کر پانی پیتی تھیں اور ایسا کرتے وقت سب کے لئے دعائیں مانگتی تھیں۔ یہ دعائیں قبول بھی ہوتی تھیں کیونکہ آس پاس کا شریفانہ اور شفقت بھرا ماحول خود ہی اس کی گواہی دے رہا تھا۔ ہمارے گھر سے ذرا سی دوری پر لڑکیوں کا ایک اسکول بھی ہوا کرتا تھا جہاں معصوم موصوم سی بچیوں کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم تھی۔ یہ بچیاں دن بھر اس نل کے پانی سے پیاس بجھاتی تھیں۔ لگتا تھا جیسے اس نل کا ٹھنڈا پانی اُن کی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد کررہا ہے۔
یہ پچاس برس قبل کی بات ہے۔ اب ہم ایک نئے محلے ، نئی کالونی میں ایک نئے مکان میں رہتے ہیں، یہاں سب کچھ ہے، گھر گھر نل ہیں لیکن وہ نل کہیں نظر نہیں آتا جو ہم سب کی پیاس بجھاتا تھا۔۔۔!
تصویر کا دوسرا چہرہ
’’انکل انکل ذرا رُکئے‘‘
انکل نے پلٹ کر دیکھا تو ایک معصوم سا لڑکا ہاتھ میں موبائل لئے کھڑا تھا۔ اُس کے کندھے پر سپورٹس بیگ لٹک رہا تھا۔
’’کیا بات ہے بیٹے،گھبرائے سے لگ رہے ہو، کون تھا وہ جو مجھے دیکھتے ہی بھاگ گیا‘‘۔
’’نہ جانے کون تھا انکل۔ مجھے نہ جانے کیا کھلانے کی کوشش کررہا تھا ۔ بار بار کہہ رہا تھا ایک بار کھالو پھر ہمیشہ مزے سے کھاتے رہو گے۔‘‘
’’اور تم؟‘‘
’’میں نے نہیں کھایا، جانے کیا کھلانا چاہتا تھا‘‘۔
’’تم جانتے ہو اُسے‘‘
’’نہیں تو۔۔۔ پہلی بار دیکھا، لیکن میں نے ۔۔۔؟‘‘
’’کیا‘‘
’’میں نے خاموشی سے اپنے موبائل میں قید کرلیا۔‘‘
’’ذرا دیکھوں تو۔۔۔ اللہ جانے ان کے گھروالے خواب غفلت میں کیوں گم ہوگئے ہیں اور اپنی جوان نسل کو برباد کررہے ہیں۔۔۔ یہ منشیات۔۔۔!
اور جب انکل نے تصویر دیکھی تو اس نے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
یہ تصویر اُس کے بیٹے کی تھی۔۔۔!
بڑا ادیب
اب کی بار پورے ایک سو پانچ منٹ کے طویل عوامی خطاب کے بعد جب خان صاحب گھر تشریف لائے تو اپنے ایک خاص کارکن سے پوچھا۔
’’اشرف صاحب، کیسی رہی میری تقریر، حقیقت بیانی کررہا تھا۔ کوئی افسانہ نہیں سُنا رہا تھا۔ ‘‘
’’جی ہاں۔ خان صاحب، جانتا ہوں، پر میری بھی ایک گذارش ہے‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’وقت کی نزاکت‘‘
’’کیا کہنا چاہتے ہیں‘‘
’’اب آپ افسانہ نہیں، افسانچہ بنایا کریں‘‘۔
دوسری کہانی
خواجہ صاحب جب بہت بیمار ہوئے تو انہیں علاج و معالجہ کے لئے ہاسپٹل جانا پڑا۔ دس روز ہاسپٹل میں رہنے کے بعد جب وہ گھر لوٹ آئے تو اُن کے رشتہ داروں، ہمسائیوں اور یار دوستوں کی وقت بے وقت آنے جانے سے گھر میں رونق سی آئی۔ ہر آنے جانے والا خالی ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ آنے جانے والوں کے ہاتھ تحفے تحائف سے مالامال ہوتے تھے اور جب خواجہ صاحب مکمل طور پر صحت یاب ہوئے تو اتنے سارے تحفے تحائف دیکھ کر اندر ہی اندر مسکرا دیئے۔
دوسرے روز ایک جان پہچان والے دوکاندار سے ان تحفے تحائف کی خرید پہ بیس فیصد کی چھوٹ دے کر ایک اچھی خاص رقم حاصل کرلی۔
اب خواجہ صاحب دوبارہ بیمار ہونے کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہے تھے۔!!
لل دید کالونی، راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛8899637012