ہلال بخاری
سنو میری کہانی۔ میں ایک بھکاری کی مانند تھا، ننگا، بے بس اور لاچار،ایک ایسا فاقہ زدہ شخص جو کسی چوراہے پر پڑا رہتا ہے، جس کی طرف کوئی دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ اس چوراہے پر پڑے ہوئے خود میرا وجود مجھے بے وقعت اور قابلِ نفرت محسوس ہوتا تھا۔ میرے ذہن میں بار بار یہ سوال ابھرتا:
“آخر ایسی زندگی کا کیا مطلب ہے؟”
پھر ایک مہربان نے مجھے سہارا دیا۔ اس نے مجھے خوبصورت کپڑے پہنائے، ایک شاندار محل عطا کیا، اور لذیذ ضیافتوں سے میرا دستر خوان بھر دیا۔ اس پر سکون اور آرام دہ ماحول میں مجھے صرف ایک معمولی کام سونپا گیا، ایک ہینڈل تھا جسے ہر روز کچھ وقت تک اوپر سے نیچے دبانا تھا۔
پہلے پہل میں بےحد خوش تھا کہ اتنی معمولی محنت کے بدلے مجھے یہ سب کچھ نصیب ہو رہا تھا مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے، میں اکتاہٹ محسوس کرنے لگا۔ انسان کی فطرت ہے کہ ایک ہی کام کو بار بار دہرانے سے وہ بیزار ہو جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ میری طبیعت میں بےچینی لوٹ آئی اور وہی سوال پھر ذہن میں گونجنے لگا:
“آخر ایسی زندگی کا کیا مطلب ہے؟”
اسی بےچینی کے عالم میں، ایک رات میں سویا تو ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی بلند اور سرود آفریں آواز میں مجھ سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہو:
“تم بے سہارا تھے، تو میں نے تمہیں سہارا دیا۔
تم بھٹکے ہوئے تھے، تو میں نے تمہیں راہ دکھائی۔
تم فقیر تھے، تو میں نے تمہیں مالا مال کر دیا۔
پھر بھی، تم اپنی ہی فطرت کے مطابق بیزار ہو!”
پھر خاموشی چھا گئی، اور میں اس کی کہی ہوئی باتوں پر غور کرنے لگا۔ کچھ لمحوں بعد، وہی آواز ایک حکم کے انداز میں گویا ہوئی:
“دیکھو اور سبق لو!”
تب میں نے نظر دوڑائی۔ میں نے دیکھا کہ میں حسبِ معمول اپنا ہینڈل اوپر سے نیچے دبائے جا رہا ہوں، مگر اب میں تنہا نہیں تھا۔ ہزاروں، لاکھوں لوگ میرے ساتھ اپنے اپنے ہینڈل دبا رہے تھے۔ یہ تمام ہینڈل ایک بڑے پمپ سے جڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہر ہینڈل پانی کا ایک قطرہ اس عظیم پمپ میں داخل کر رہا تھا اور یہ تمام قطرے مل کر ایک دریا بنا رہے تھے۔
یہ دریا ایک عظیم الشان، سرسبز و شاداب وادی کو سیراب کر رہا تھا۔ اس کے پانی سے ہزاروں باغات پھل پھول رہے تھے۔ زندگی کے آثار ہر ذرے اور گوشے میں نمایاں تھے۔
میں نے دیکھا کہ رنگین پرندے اس دریا سے پانی لے جا کر اپنے گھونسلوں میں بے صبری سے انتظار کررہے بچوں کی پیاس بجھا رہے ہیں اور پھر خوشی میں سریلے نغمے گا رہے ہیں۔ سرسبز میدانوں میں تندرست و توانا گھوڑے چَر رہے ہیں، اور پھر سوار ان پر زین کَس کر انہیں تیز دوڑا رہے ہیں۔ شہد کی مکھیاں حسین و جمیل پھولوں سے حیات افزا رس چُرا کر شیریں شہد بنا رہی ہیں، جو ننھے معصوم بچوں کے لبوں سے چھو کر انہیں صحت و توانائی بخش رہا ہے۔
پھر وہ آواز مجھ سے دوبارہ مخاطب ہوکر فرماتی ہے،
” ہر شے اہم ہے ، تو انسان کی زندگی فضول کیسے ہوسکتی ہے ؟”
خواب ہی خواب میں میں اس بات پر غوروفکر کرنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ پرسکون نیند نے مجھے اپنی مہربان آغوش میں لیا۔
اگلی صبح جب میں جاگا تو میرا دل نورِ بصیرت سے روشن تھا۔ اب میں اس ہینڈل کو جوش و خروش اور عقیدت کے ساتھ دبانے لگا، کیونکہ میں اپنی زندگی کا مطلب جان چکا تھا۔
���
ہردوشورہ کنزر، ٹنگمرگ بارہمولہ