یو این آئی
برازاویلے//جمہوریہ کانگو میں ایندھن لے جانے والی کشتی میں آگ لگنے سے ہلاکتوں کی تعداد148تک جاپہنچی، درجنوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق علاقے سے تعلق رکھنے والے قومی نمائندوں کے وفد کے سربراہ جوزفین پیسیفیک لوکومو کے مطابق منگل کے روز یہ حادثہ اس وقت پیش آیا تھا، جب شمال مغربی علاقے میں دریائے کانگو پر لکڑی کی ایک کشتی پر سیکڑوں مسافر سوار تھے۔یہ حادثہ ایکویتور صوبے کے دارالحکومت مبنداکا کے قریب پیش آیا تھا، جو روکی اور دنیا کے سب سے گہرے دریائے کانگو کے سنگم پر واقع ہے۔انہوں نے کہا کہ بدھ کو 131 لاشیں ملی تھیں، جب کہ جمعرات اور جمعہ کو مزید 12 لاشیں نکالی گئیں، لوکومو نے کہا کہ مرنے والوں میں زیادہ افراد آگ لگنے سے جھلس کر ہلاک ہوئے۔مقامی سول سوسائٹی کے رہنما جوزف لوکونڈو(جنہوں نے لاشوں کی تدفین میں مدد کی)نے کہا کہ ہلاکتوں کی عارضی تعداد 145 ہے، کچھ جل گئے جب کہ کچھ ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جوزفین لوکومو نے بتایا کہ جہاز میں کھانا پکانے کے دوران آگ بھڑک اٹھی تھی، جو ایندھن میں دھماکے کی وجہ سے تیزی کے ساتھ پھیل گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ایک عورت نے کھانا پکانے کے لیے آگ جلائی، اس دوران ایندھن، جو زیادہ دور نہیں تھا، اس نے آگ پکڑ لی اور زوردار دھماکا ہوا، جس سے بہت سے بچے اور خواتین ہلاک ہوگئے۔تباہ شدہ کشتی پر سوار مسافروں کی کل تعداد معلوم نہیں ہوسکی ہے، لیکن لوکومو کا کہنا ہے کہ یہ سینکڑوں لوگ تھے۔لوکونڈو نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو بچا لیا گیا ہے اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں، تاہم کئی خاندان اب بھی اپنے پیاروں کی خبر سے محروم ہیں۔وسطی افریقہ کا ایک بڑا ملک ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو قابل عمل سڑکوں کی کمی کا شکار ہے۔نتیجتا سفر اکثر جھیلوں، دریائے کانگو اور اس کی معاون ندیوں پر ہوتا ہے، جہاں کشتیوں کے تباہ ہونے کی اکثر خبریں آتی رہتی ہیں، ہلاکتوں کی تعداد اکثر زیادہ ہوتی ہے۔مسافروں کی فہرستوں کی مستقل عدم موجودگی اکثر سرچ آپریشن کو پیچیدہ بنادیتی ہے۔اکتوبر 2023 میں کانگو جانے والی ایک کشتی کے ایکویٹور میں ڈوبنے سے کم از کم 47 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔مقامی حکام کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر میں مشرقی ڈی آر سی میں کیوو جھیل پر ایک کشتی الٹنے سے 20 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔2019 میں جھیل کیوو پر ایک اور بحری جہاز کے حادثے میں تقریبا 100 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔