عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/اینٹی کرپشن بیورو نے ہفتہ کے روز سرینگر میں دو الگ الگ کیس درج کرنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ فلڈ اسپِل چینل ڈویژن ناربل کے دو سابق ایگزیکٹیو انجینئرز اور ایک برسرملازمات اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اے سی بی، جاوید حسن بھٹ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اے سی بی پولیس اسٹیشن سرینگر نے ایک ایف آئی آرزیر نمبر (JSC No. 17/2020) درج کی ہے، تاکہ ناربل میں ہوکرسر ویٹ لینڈ کی ڈریجنگ کے دوران بے ضابطگیوں اور پیشہ ورانہ بدعنوانیوں کی تحقیقات کی جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں عوامی عہدیداروں اور ایک نجی ٹھیکیدار کمپنی M/S Reach Dredging Limited کی جانب سے سنگین غفلت اور بدعنوانی سامنے آئی۔ ٹینڈر نوٹس (NIT No. 01 of 2018-19 مورخہ 7 جولائی 2018) کے تحت ہوکرسر ویٹ لینڈ میں چینل کی تعمیر کا کام مذکورہ کمپنی کو 2055.565 لاکھ روپے میں الاٹ کیا گیا تھا، جس میں یہ شرط شامل تھی کہ کسی بھی قسم کا مواد ہوکرسر ویٹ لینڈ کی حدود میں نہ ڈالا جائے۔
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کام کی مقدار اور طریقہ کار میں نمایاں تبدیلیوں کے باوجود اصل تشہیر شدہ مقدار اور لاگت پر ہی کام الاٹ کیا گیا، جبکہ کھدائی شدہ مواد کی نکاسی اور ڈمپنگ سائٹس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں تھی۔ 8 کلومیٹر سے 18 کلومیٹر تک کی مختلف ٹرانسپورٹ لیڈز کو ایک ساتھ شامل کیا گیا، جس سے نقل و حمل کے جعلی اخراجات کا فائدہ اٹھایا گیا، اور زیادہ تر کھدائی شدہ مواد کو مطلوبہ طریقے سے تلف نہیں کیا گیا۔
ایس ایس پی کے مطابق، اس بدعنوانی سے ریاستی خزانے کو تقریباً 2.29 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا، جبکہ معدنی وسائل اور ماحولیات کو بھی نقصان ہوا۔
ایس ایس پی نے مزید کہا کہ عوامی عہدیداران سراج الدین شاہ، غلام احمد بیگ اورعرفان احمد ریشی سابق ایگزیکٹو انجینئرز اور ایک بر سر ملازمت اے ای ای نے M/S Reach Dredging Limited کمپنی کے ساتھ مل کر ریاستی خزانے کو شدید نقصان پہنچایا اور ویٹ لینڈ کی صفائی کے مقصد کو ناکام بنایا۔
ان انکشافات کی بنیاد پر، ایف آئی آر نمبر 07/2025 دفعہ 5(1)(d) r/w 5(2) انسدادِ بدعنوانی ایکٹ جموں و کشمیر اور دفعہ 120-B آر پی سی کے تحت درج کی گئی ہے، اور تحقیقات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تینوں اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا ہے اور مزید ریمانڈ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایس ایس پی جاوید حسن بھٹ نے دوسرا کیس پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ معاملہ اُس وقت کی جھیلوں اور آبی گزرگاہوں کی ترقیاتی اتھارٹی (LAWDA) کی جانب سے غیر قانونی عمارت کی اجازت سے متعلق ہے۔انہوں نے بتایا کہ اے سی بی سرینگر نے ایک تصدیق (SLK-12/2017) کے بعد کارروائی شروع کی، جو مسجد شریف گگر بل بولیورڈ کی انتظامیہ کمیٹی کی شکایت پر کی گئی۔
شکایت میں کہا گیا کہ افتخار صادق ولد رفیق صادق، ساکن گگر بل، نے تقریباً 12 کنال کسٹوڈین زمین پر غیر قانونی طور پر کثیر المنزلہ ہاسٹل عمارتیں تعمیر کیں۔ تصدیق سے پتہ چلا کہ LAWDA، ٹاؤن پلاننگ آرگنائزیشن اور کسٹوڈین ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے مجرمانہ سازش کے تحت اجازت نامے جاری کیے۔
تین ہاسٹل عمارتوں کی این اور سی کے باوجود، ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید دو عمارتوں کی اجازت دی گئی، جبکہ ہر ہاسٹل کے لیے 3 کنال زمین کی لازمی شرط کو نظر انداز کیا گیا۔ تعمیرات منظور شدہ نقشوں سے بالکل مختلف تھیں، جو کہ ہاسٹل کم اور ریزورٹ زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔
ایس ایس پی کے مطابق، اس کیس میں LAWDA اور کسٹوڈین ایویکی پراپرٹی ڈیپارٹمنٹ کے کئی اہلکاروں پر الزام ہے کہ انہوں نے ذاتی مالی فائدے کے لیے افتخار صادق سے ملی بھگت کی۔ ان شواہد کی بنیاد پر ایف آئی آر نمبر 08/2025 اے سی بی پولیس اسٹیشن سرینگر میں درج کی گئی ہے اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔
جب تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو ایس ایس پی نے بتایا کہ شکایات میں تاخیر اور محکموں سے ریکارڈ جمع کرنے کے دوران درپیش مشکلات کی وجہ سے یہ تاخیر ہوئی۔ “ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 2014 کے سیلاب میں کئی ریکارڈ تباہ ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے وقت لگتا ہے،لیکن اے سی بی اہلکاروں اور محکموں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے تاکہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
اینٹی کرپشن بیورو کی جانب سے سرینگر میں دو مقدمات درج ،پوچھ گچھ کیلئے تین افراد کو حراست میں لیا
