ڈاکٹر رغبت شمیم ملک
معتبر معاصر نقاد قدوس جاوید کی تازہ ترین تنقیدی کتاب ’’تنقیدی نظر اور نظریے ‘‘ اردو میں واحد ایسی کتاب ہے جس میں عصر حاضر کے تقریباً اہم ادبی نظریات(تھیوریز)کا غیر جانبدارانہ تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ مثلاًساختیاتِ،ہیئت پسندی، تانیثیت، نو تاریخیت، بین المتونیت اور اکتشافی تنقید وغیرہ ۔ ان مضامین کے علاوہ اس کتاب میں چار مضامین ایسے ہیں جن میں انھوں نے اردو ادب کی موجودہ تخلیقی اور تنقیدی صورت حال کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے تنقیدی نُقطہ نظر کی وضاحت کی ہے ۔یہ چار مضامین ہیں ۔1۔تخلیق،تخلیقیت، تخلیق کار اور قاری۔2۔ ’’ترقی پسندی سے مابعد جدیدیت تک ،ڈسکورس اور آئیڈیالوجی‘‘۔3 ۔ ’’مابعد جدیدیت ۔احیا و ارتقا‘‘۔4۔ معاصر اردو تنقید۔مابعد جدیدیت کے بعد ‘‘۔
قدوس جاوید (پیدائش 27اکتوبر1947) ریاست جموں و کشمیر کے بزرگ ترین نقاد ہیں ۔ پروفیسر حامدی کاشمیری اور پروفیسر ظہورالدین کے بعد قدوس جاوید ہی ہیں جنھوں نے اردو دنیا میںاپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے ۔ برصغیر ہند و پاک کی معاصر اردو تنقید میں شمس الرحمن فاروقی،گوپی چند نارنگ ، وزیر آغا اور شمیم حنفی کے بعد قدوس جاوید کی تنقیدی تحریروں کو ہی اردو دنیا میں اعتبار کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔قدوس جاوید کی اب تک ایک درجن سے زیادہ تنقیدی و تحقیقی کتا بیں شائع ہوچکی ہیں ۔ان کی چند اہم کتابوں کے عنوانات اس طرح ہیں۔ 1۔ادب اور سماجیات( 1978) ،2۔ادب کے جمالیاتی مسائل ( 1985)،3۔تعبیر و تنقید(1991) ،4 ۔اقبال کی جمالیات (2007)،5۔اقبال کی تخلیت (2009)،6۔غلام رسول نازکی۔ایک لیجینڈ(2014)،7۔متن ،معنی اور تھیوری۔8۔اقبال اور مابعد جدید شعریات(2016)،9۔ ’ادب کے معمار ،جموں،کشمیر اور لداخ میں اردو (2021) ،اکیسویں صدی میں اردو شعریات (2023)،10۔ تنقیدی نظر اور نظریے (2024)۔ اس کے علاوہ اب تک قدوس جاوید کے چار سو سے زائد مضامین شائع چکے ہیں اور تقریباًہر ماہ ان کی کوئی نہ کوئی تنقیدی تحریر ہند و پاک کے رسائل میں شائع ہوتی ہی رہتی ہے ۔
پروفیسر قدوس جاوید نے اپنی اس تازہ ترین کتاب ’’تنقیدی نظر اور نظریے ‘‘ کے پیش لفظ میں ادبی تنقید سے متعلق اپنی نظر اور نظرئے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’تنقید :زبان و ادب کی ’قرأت‘ کا استعارہ بھی ہے اور قارئین کی شراکت سے ادب کے لسانی و فکری امکانات کو روشن کرنے کا وسیلہ بھی۔ذات،زندگی ،زبان اور زمانہ کے سماجی وثقافتی ’سیاقات‘ کے حوالے سے ،شعر و ادب کے فنی و جمالیاتی مضمرات تک رسائی حاصل کرنا اور ان کا مُخلصانہ تجزیہ اور توضیح و تعبیر ہی تنقید کا منصبِ اصلی ہے ۔ اگر تنقید اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتی ،یا اس میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو ایسی تنقید کو معیاری تنقید قرار نہیں دیا جا سکتا ۔یہی سوچ میری تنقید نگاری کا مرکزی نُقطہ ہے ۔اسے آپ میری ’’تنقیدی نظر ‘‘بھی کہہ سکتے ہیں اور ’’نظریہ ‘‘بھی ۔دراصل کاغذ ہو یا زمین ،ہر شخص جینے کے لئے کسی نہ کسی ’نظریہ ،ادب آداب ،اصول و ضوابط کی پیروی کرتا ہی ہے۔یہ نظریہ انسان/ادیب کبھی اپنے مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر خود وضع کرتا ہے ،کبھی اس کا مُحر ک اس کا ’آرکی ٹائپ‘( Archetype ) ہوتا ہے اور کبھی ،ایمان ا ور عقیدہ/آستھا ہوتا ہے ۔اسی طرح اکثر ماحول معاشرہ کے اربابِ فکر و فن ،اساتذہ کی صحبت،تربیت بھی انسان/ادیب کے اندر مختلف اور متضاد نظریوں کا شعور پیدا کرتی ہےاور وہ اپنی اُفتادِ طبع کے مطابق ان میں سے کسی خاص نظریہ پر گامزن ہوتا ہے ۔ویسے آج کی تاریخ میں کوئی بھی نظریہ سو فی صد ’اکہرا، ٹھوس اور حتمی نہیں ہوتا ،کیونکہ خود زندگی کسی ایک ڈھرے پر نہیں چل پا رہی ہے ۔ ’’ہر لحظہ نئی آن ،نئی شان ‘‘اختیار کرنے والا وقت کا ’سیلِ روان‘ ہر نظریہ ، ہر اصول کو اپنے ساتھ بہا کر دوسرے متوازی یا مخالف نظریات کی حدود میں داخل کرتا رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ تک مارکسیت(ترقی پسندی)ہوکہ جدیدیت،مابعدجدیدیت، ہئیت پسندی ہو کہ ’ساختیات، یا ’تانیثیت ہو کہ ’نو تاریخیت ‘،ایسے سبھی نظریات، مختلف لسانی ، ادبی،علمی اور فلسفیانہ مباحث کے سبب سیال ہوچکے ہیں، اسی لئے کسی بھی نظریہ (تھیوری)کی دو اور دو چار کی طرح کوئی ایک اور سب کے لئے قابلِ قبول ’تعریف‘ یا توضیح دشوار ہے ۔لیکن مطالعہ کی آسانی اور ادب کے افہام و تفہیم کی خاطر کسی نہ کسی نظرئے کو ساتھ لے کر چلنا،تنقید کی مجبوری ہی ہے‘‘ ۔ (پیش لفظ ۔ تنقیدی نظر اور نظریے‘‘)
قدوس جاوید نے اپنی اس کتاب میں اردو ادب کے نظریات سے متعلق مدلل گُفتگو کتے ہوئے اپنا یہ نظریہ بھی پیش کیا ہے کہ: ’’ اکیسویں صدی کی آج کی تاریخ تک آکر اردو کا ’’تخلیقی ادب( شاعری ۔فکشن) جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے بھی آگے نکل چکا ہے ۔’ارضیت، مقامیت، یا دیسی پن ( NATIVISM ) کو معاصر اردو ادب میں مرکزیت حاصل ہوتی جا رہی ہے ۔ لہٰذا صرف شعر وادب ہی نہیں ، عصر حاضر کے سماجی ، سیاسی ، معاشی اور مذہبی ماحول، مباحث کے پیش نظرمعاصراردو تنقید کو بھی اپنے لئے کہیں زیادہ فطری اور حقیقت پسندانہ کردار نبھانا ہوگا ۔ کیوں کہ زندگی اور زمانہ کی طرح ادب و فن کے میدان میں بھی یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے ۔
رابطہ ۔:9971087815