مولانا قاری اسحاق گورا
حال ہی میں بھارت میں یوگا گرو اور تاجر بابا رام دیو ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنے، مگر اس بار وجہ یوگا، آیوروید یا فلاحی کام نہیں بلکہ ان کے ایک شربت کی تشہیر کے دوران دیا گیا غیر مناسب بیان ہے۔ انہوں نے’’شربت جہاد‘‘ جیسی نئی اصطلاح گھڑ کر مذہبی پولرائزیشن کی ایک اور مثال قائم کی ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی دوسرے برانڈز کے شربت پیئے گا تو’’مدرسے اور مساجد‘‘ بنیں گے اور اگر پتنجلی کا شربت پیئے گا تو’’گروکل‘‘ بنیں گے۔ اس بیان نے بھارت کی سیاسی، سماجی اور کاروباری فضا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔یہ پہلی بار نہیں کہ رام دیو نے اپنی کمپنی پتنجلی کی مصنوعات کی تشہیر میں متنازعہ مذہبی بیانات دیے ہوں۔ تاہم اس بار بات صرف تشہیر کی نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب، ایک مذہب اور اس کی ثقافت پر سوال اٹھانے کی ہے۔’’شربت جہاد‘‘ جیسی اصطلاح ایجاد کر کے رام دیو نے نہ صرف بھارت کی کثیرالثقافتی شناخت پر حملہ کیا ہے بلکہ اپنے بزنس مفادات کے لیے مذہبی منافرت کا سہارا لیا ہے۔
رام دیو کے بیان سے ایک نئی اصطلاح نے جنم لیا ہے۔’’شربت جہاد‘‘ کا لفظ’’جہاد‘‘ حالیہ دہائیوں میں بھارت میں ایک متنازعہ اور غلط استعمال شدہ اصطلاح بن چکا ہے۔ اسے کبھی ’’لو جہاد‘‘، کبھی’’لینڈ جہاد‘‘ اور کبھی’’پاپولیشن جہاد‘‘ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ ان تمام اصطلاحات کا مقصد ایک ہی ہے، مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کے سماجی، معاشی اور مذہبی رویّوں کو مشکوک بنا کر اکثریتی طبقے میں خوف اور نفرت پیدا کرنا۔’’شربت جہاد‘‘ کی اصطلاح اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص ہمدرد کمپنی یا کسی اور مسلم زیرِ انتظام کمپنی کا شربت خریدتا ہے، تو وہ گویا اسلام کی ترویج کا حصہ بن رہا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ بھارت کے آئینی اور تہذیبی ڈھانچے کے خلاف بھی ہے، جہاں ہر شہری کو مذہب، پیشے اور تجارت کی آزادی حاصل ہے۔
رام دیو کے اس بیان کو سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں جس طرح جوڑا گیا ہے، اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کا اشارہ ہمدرد کمپنی کے مشہور شربت’’روح افزا‘‘ کی جانب تھا۔ روح افزا صرف ایک مشروب نہیں بلکہ جنوبی ایشیائی تہذیب کا ایک مستقل جزو ہے۔ یہ شربت دہلی میں 1906 میں حکیم عبدالمجید نے بنایا تھا اور تب سے اب تک یہ رمضان، افطار، گرمیوں کے موسمی مشروبات اور تہواروں کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ ہمدرد لیبارٹریز، جو اس شربت کی تیاری کرتی ہے، ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو صحت، تعلیم اور سماجی خدمات کے میدان میں کام کرتا ہے۔ ہمدرد نے کبھی اپنی مصنوعات کی تشہیر مذہبی بنیادوں پر نہیں کی، نہ ہی کبھی انہیں کسی خاص طبقے سے جوڑ کر پیش کیا گیا۔ روح افزا ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب کے گھروں میں یکساں مقبول ہے۔ اس کے باوجود اگر اسے’’جہادی‘‘ قرار دیا جائے، تو یہ ایک نہایت افسوسناک اور خطرناک رجحان کی نشاندہی ہے۔
یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ رام دیو نہ صرف ایک یوگا گرو ہیں بلکہ بھارت کی ایک بڑی ایف ایم سی جی (فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز) کمپنی ’’پتنجلی‘‘ کے بانی اور چہرہ بھی ہیں۔ پتنجلی نے آیورویدک مصنوعات کے ذریعے ایک خاص طبقے میں مقبولیت حاصل کی ہے اور اس کی مارکیٹنگ میں ہمیشہ’’بھارتی تہذیب‘‘، ’’دیش بھگتی‘‘ اور’’سوادھیشی‘‘ جیسے نعروں کا سہارا لیا گیا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب مسابقت بڑھ گئی اور مارکیٹ میں دیگر برانڈز نے جگہ بنانی شروع کی، تو پتنجلی کی فروخت میں کمی دیکھی گئی۔ ایسے میں رام دیو نے ایک بار پھر مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنی مصنوعات کو ایک مخصوص عقیدے کے پیروکاروں کے لیے’’واجبی انتخاب‘‘ بنا کر پیش کیا جا سکے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ پتنجلی کا شربت خریدنے سے’’گروکل‘‘ بنیں گے، ایک نہایت سطحی مگر چالاک مارکیٹنگ حربہ ہے جس کے پیچھے کارفرما نیت صرف کاروباری فائدہ ہے۔
بھارت میں’’جہاد‘‘ کے لفظ کو حالیہ برسوں میں جس طرح منفی معنی پہنائے گئے ہیں، وہ نہ صرف اسلام کے حقیقی مفہوم کے خلاف ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے خلاف ایک سوچے سمجھے بیانیے کی تشکیل کا بھی حصہ ہے۔ جہاد کا اصل مطلب جدوجہد، کوشش یا محنت ہے، جسے روحانی، اخلاقی یا معاشرتی سطح پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن آج بھارت میں اس کا مطلب صرف’’دہشت گردی‘‘ یا’’سازش‘‘ کے طور پر لیا جاتا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ اب’’شربت جہاد‘‘ اس کی نئی کڑی ہے، جس میں ایک بے ضرر مشروب کو بھی مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف بھارتی مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ ہے بلکہ بھارتی معاشرت کے مشترکہ ثقافتی ورثے کے لیے بھی خطرناک ہے۔
رام دیو کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ہزاروں لوگوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ رام دیو کو شربت بیچنے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن اپنی مارکیٹنگ میں دوسرے برانڈز کو’’جہادی‘‘ کہنا ان کے سیاسی اور کاروباری عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ بہت سے صارفین نے روح افزا کی تصاویر شیئر کر کے اسے’’تہذیب کا شربت‘‘ قرار دیا اور اس کی غیر فرقہ وارانہ شناخت کو سراہا۔ یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ رام دیو نے کسی برانڈ کا نام نہیں لیا، لیکن ان کے بیان کی نوعیت اتنی واضح تھی کہ سب کی نظریں ایک ہی سمت میں گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے نہایت چالاکی سے ایک مخصوص ثقافت اور اس کے نمائندہ مشروب کو نشانہ بنایا تاکہ ایک مخصوص طبقے کی ہمدردی حاصل کر سکیں۔
بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں کاروبار، تعلیم، مذہب اور سیاست کو الگ الگ دائرہ ہائے کار میں رکھنا آئینی تقاضا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں یہ سرحدیں دھندلا گئی ہیں۔ بہت سے کاروباری ادارے، خاص طور پر وہ جو کسی مخصوص نظریے سے وابستہ ہیں، مذہب کو مارکیٹنگ کا ہتھیار بنانے لگے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف خطرناک ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک غلط مثال بھی قائم کرتا ہے۔رام دیو جیسے بااثر شخصیات جب اس طرح کے بیانات دیتے ہیں تو ان کے چاہنے والے اور پیروکار بھی اسی طرح کی سوچ اختیار کرتے ہیں، جو فرقہ واریت کو فروغ دیتی ہے۔ رام دیو کے’’شربت جہاد‘‘ والے بیان نے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بھارت میں مذہب کو کاروبار اور سیاست کے لیے کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مذہبی ہم آہنگی، ثقافتی تنوع اور مشترکہ تہذیبی ورثہ ہمیشہ فخر کا باعث رہا ہے، وہاں محض ایک شربت کو بنیاد بنا کر مذہبی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش ایک نہایت افسوسناک اور خطرناک رجحان ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر شخص کو اپنے کاروبار کو فروغ دینے کا حق حاصل ہے، لیکن اس آزادی کے ساتھ ایک سماجی ذمہ داری بھی وابستہ ہے۔لیکن جب کوئی شخصیت تجارتی فائدے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرے تو یہ عمل محض غیر اخلاقی نہیں بلکہ ایک سماجی بیماری کی علامت بن جاتا ہے۔’’شربت جہاد‘‘ جیسی اصطلاح کوئی معصوم جملہ نہیں بلکہ ایک ایسی سوچ ہے جو ہندو مسلم تضادات کو اُبھار کر ایک مخصوص مارکیٹ میں جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے۔
یہ حقیقت قابل غور ہے کہ ہمدرد جیسے ادارے، جنہوں نے کبھی اپنے مذہبی پس منظر کو کاروباری تشہیر کا ذریعہ نہیں بنایا، اب ان کے خلاف بالواسطہ نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ روح افزا صرف ایک مشروب نہیں بلکہ مشترکہ ثقافت، تہذیب اور ذائقے کی علامت ہے۔ اسے’’جہاد‘‘ سے جوڑنا دراصل اس روایت، اس ذائقے اور اس تہذیبی رشتے کو مسخ کرنے کی کوشش ہے جو برصغیر کے ہر مذہب، نسل اور علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ برسوں سے بانٹتے آ رہے ہیں۔رام دیو کے اس بیان سے یہ تاثر تقویت پاتا ہے کہ اب بھارت میں کاروبار اور ثقافت کا فروغ بھی مذہبی شناخت کی بنیاد پر کیا جائے گا، اور ہر چیز کو’’ہم‘‘ اور’’وہ‘‘ کی لکیر سے ماپا جائے گا۔ یہ صورتحال نہ صرف بھارتی آئین کی روح کے منافی ہے بلکہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کو بھی چیلنج کرتی ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ بھارت کی نوجوان نسل کو اس قسم کے تنگ نظر بیانیے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگراُن کے ذہنوں میں شربت، کپڑے، کھانے اور زبان کو بھی مذہب کے آئینے میں دیکھنے کا رجحان پیدا ہوا، تو معاشرہ شدید تقسیم کا شکار ہو جائے گا۔ لہٰذا وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مذہب کو نفرت اور تجارتی چالاکی کے لیے استعمال کرنے والوں کو سماجی اور قانونی سطح پر جواب دہ ٹھہرایا جائے۔ سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ اب ان حربوں کو پہچاننے لگے ہیں اور وہ اپنی تہذیب، بھائی چارے اور مشترکہ ورثے کے خلاف کسی بھی سازش کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔بھارت جیسے ملک کو جو چیز عظیم بناتی ہے، وہ اس کی رنگارنگی، اس کا تنوع اور اس کا بھائی چارہ ہے، جو ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔
رابطہ۔: 9897399207
[email protected]