مجاہد عالم ندوی
علامہ سید سلیمان ندوی 22 نومبر 1884ء میں موضع دیسنہ ضلع عظیم آباد میں پیدا ہوئے ، یہ بڑا مردم خیز خطہ ہے ، اس چھوٹے سے گاؤں نے جتنے گریجویٹ پیدا کئے،اتنے پاک و ہند کے کسی اور گاؤں نے پیدا نہیں کئے ہوں گے ، اسی طرح اس نے عربی کے بھی متعدد منتہٰی پیدا کئے ، انہی میں سید سلیمان ندوی کا شمار ر ہوتا ہے ۔
ان کے والد ماجد کا نام ابوالحسن تھا ، مولانا سید سلیمان ندوی نے ابتدائی تعلیم قصبہ پھلواری بھنگہ میں حاصل کی ، اس کے بعد دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی ، اسی زمانے میں علامہ شبلی نعمانی نے مولانا ندوی صاحب کو اپنے حلقہ تلمذ میں شامل کر لیا ۔ سید صاحب جب فارغ التحصیل ہوئے تو اسی ادارے سے وابستہ ہو گئے لیکن وہ بہتر ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد جانا چاہتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی نے کوششیں بھی کیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی ، اس سلسلے میں سید صاحب 1908ء میں حیدرآباد بھی گئے تھے لیکن قدرت کو ان سے کچھ اور ہی کام لینا تھا ۔
سید سلیمان ندوی صاحب عربی زبان پر بھی بڑی قدرت رکھتے تھے ۔ دارالعلوم ندوہ کے سالانہ اجلاس میں سید صاحب نے پہلی دفعہ عربی میں برجستہ تقریر کی جسے سن کر علامہ شبلی اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے جلسہ میں اپنا عمامہ اُتار کر ان کے سر پر رکھ دیا۔ سید صاحب نے کچھ عرصہ دارالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں جب کہ کچھ عرصہ تک ’’ الہلال ‘‘میں مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ کام کیا ۔
اس کے بعد وہ دکن کالج پونا میں دو سال تک فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر رہے ، مارچ 1911ء میں سید صاحب کو پھر حیدرآباد جانے کا موقع ملا ، علامہ شبلی کے دوران قیام عماد الملک نے ان کے ندوة العلماء کے کام سے متاثر ہو کر اپنا بیش قیمت کتب خانہ ندوہ کو دے دیا تھا ۔چنانچہ اس کتب خانے کو حیدرآباد سے لانے کے لیے مولانا شبلی نعمانی نے سید صاحب کا انتخاب کیا ، 1941ء میں جب علامہ شبلی نعمانی کا انتقال ہوا تو سید صاحب دکن کالج پونا میں لیکچرار تھے ۔ علامہ صاحب نے ان کو وصیت کی تھی کہ سب کام چھوڑ کر سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل اور اشاعت کا فرض ادا کریں ۔
چنانچہ سید صاحب نے ملازمت ترک کر دی ، ان کے پیش نظر دو اہم منصوبوں کی تکمیل تھی ، ایک سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف و تالیف اور دوسرا دار المنصنفین کے نوخیز پودے کو بار آور کرنا ، انہوں نے ہر جانب سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو ان مقاصد کے لیے وقف کر دیا ، بالآخر بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے اپنے استاد کی نامکمل کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔اس کی وجہ سے علمی دنیا میں ان کا نام دور دور تک مشہور ہو گیا ۔ سیرت کی چھ جلدوں میں ابتدائی پونے دو جلدیں ان کے استاد شبلی نعمانی کی ہیں جبکہ بقیہ چار کتابیں انہوں نے خود مرتب کیں۔ سید صاحب کی علمی فضیلت کے حوالے سے جناب ضیاء الدین برنی اپنی کتاب ’’ عظمت رفتہ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1920ء میں جب وفد خلافت انگلستان بھیجنے کی تجویز سامنے آئی تو سلیمان ندوی کو ان کی غیر معمولی علمی فضیلت کی وجہ سے علمائے ہند کی جانب سے وفد میں شامل کیا گیا ، وہاں انہوں نے ممتاز مستشرقین سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا ، انہوں نے جنگ آزادی میں بھی بھر پور حصہ لیا ۔
1917ء میں اجلاس علمائے بنگال منعقدہ کلکتہ کی صدارت فرمائی اور حکومت کے جبر و تشدد کے با وجود جرأت آموز خطبہ عطا کیا کہ لوگوں کے ذہن سے انگریز کی مرعوبیت اٹھ گئی ۔ علامہ شبلی نعمانی کی طرح علامہ سید سلیمان ندوی کو بھی تاریخ اور ادب سے خاص لگاؤ تھا ، انہوں نے سیرت ، سوانح ، مذہب ،زبان و ادب کے مسائل پر تحقیقی کام کیا اور ماہنامہ معارف جاری کیا اور اس کے ذریعے دین و ادب کی ٹھوس خدمت کی ۔
1950ء میں ندوی صاحب پاکستان آ گئے اور کراچی میں آباد ہوئے ۔یہاں انہوں نے پاکستان اور ملت اسلامیہ کی جو خدمات انجام دیں وہ کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں ۔ندوی صاحب ایک بلند پایہ عالم مؤرخ ، مصنف او ر مدبر تھے ، ان کی تصانیف میں سیرت النبی حصہ سوم تا ششم ، خطبات مدارس ، عرب و ہند کے تعلقات ، عربوں کی جہاز رانی ، سیرت عائشہ ؓ، حیات شبلی ، خیام اور نقوش سلیمانی شامل ہیں ، علامہ سیلمان ندوی کو شعر و سخن کا بھی شوق تھا ۔
ان کا شعری مجموعہ ’’ ارمغان سلیمان ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ، ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کو ’’ نشان سپاس ‘‘ سے نوازا۔ نومبر کے آخری مہینے 1953ء کو مولانا ندوی مجاہد اسلام ، عالم ، ادیب شاعر علامہ شبلی نعمانی کے رفیق کار اور شاگرد مؤلف ’’ سیرت النبی‘‘ نے دار فانی سے کوچ کیا اور مالک حقیقی سے جا ملے ۔ مولانا کی آخری آرام گاہ اسلامیہ کالج کراچی کے عقب میں ایک احاطہ میں واقع ہے۔ ان کی تدفین کے وقت سفیر شام نے کہا کہ ہم سلیمان ندوی کو دفن نہیں کر رہے بلکہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام دفن کر رہے ہیں ۔
(رابطہ۔ : 8429816993)
[email protected]
������������������