مقصوداحمدضیائی
(گذشتہ سے پیوستہ)
صاحب تذکرہ مولانا عبدالغنی القاسمی درس و تدریس ہو یا دفتری امور یا ذاتی زندگی میں صوم و صلوٰة و تقویٰ داری ہر دو میدانوں میں اپنی مثال آپ رہے ، فکر و عمل سے بھرپور ہونے کے باوجود آپ کی منکسرالمزاجی مسلَّم ہے ، اہل نظر فرماتے ہیں کہ انسان کے اچھے اخلاق و کردار اور نیک اعمال و افعال ، عظمت و رفعت عطا کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے کارناموں کی بدولت ہی یاد کیا جا تا ہے ، بہ ہرحال آپ کی تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔آپ کے ذریعے بنائے گئے نقوش یقیناً فیلڈ کے دوسرے لوگوں کو روشنی فراہم کریں گے ، آپ کے کام کرنے کا طریق کار یہ بھی بتاتا ہے کہ موجودہ دور میں زندگی کے تمام شعبوں میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی جا رہی ہیں ، ایسے میں خود کو اَپ ڈیٹ کرنا کتنا ضروری ہے تاکہ سماج کے دوسرے لوگ بھی عصرِ حاضر کے تقاضوں کو اس طرز پر پورا کر سکیں۔ مختصر یہ کہ اساتذہ کبھی بھی سبکدوش نہیں ہوا کرتے ، نوکری میں آنا اور ریٹائرڈ ہونا ایک سرکاری عمل ہے، اس کے تحت متعینہ مدت کے لیے گورنمنٹ سروس میں لوگ بحال ہوتے ہیں اور ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں ، اسی مرحلہ کو آں موصوف نے بھی خوش اسلوبی سے پار کر لیا ہے۔ امید ہے کہ سبکدوشی کے بعد موصوف ملت کے نونہالوں کے مستقبل کی تابناکی کی خاطر پہلے سے کہیں زیادہ اپنی توجہات تعلیم پر مرکوز فرمائیں گے ، اس کی ایک روشن مثال سابق صدر جمہوریہ ہند ابوالفاخر زین العابدین عبدالکلام مرحوم کی ہمارے سامنے ہے ۔آں مرحوم ایوان صدر سے نکل کر سیدھے یونیورسٹی پہنچے اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو کر ایک ایسی مثال قائم کر دی کہ جو اس عظیم ملک کی عظیم تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ چمکتی رہے گی ، بربنائے تذکرہ بات میں بات آگئی وہ یہ کہ شعبہ تعلیم سے سبکدوش ہونے والوں کو کاتب حروف کا یہ مشورہ رہے گا کہ وہ پہلی فرصت میں معروف صاحب قلم ، حضرت مولانا ابن الحسن عباسیؒ کی آخری تصنیف ’’یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ‘‘ کا ایک بار مطالعہ فرمالیں بطور خاص اس میں محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ شعبہ تاریخ ، کا مضمون بعنوان ’’نگاربیتی ‘‘جو محترمہ کی خدمات جلیلہ کا ایک بہترین تعارف بھی ہے کو ایک نظر دیکھ لیں وہ فرماتی ہیں کہ ’’ ہمارے یہاں بہت سے لوگ خصوصاً مرد حضرات کا مسئلہ یہ رہتا ہے کہ وہ ریٹائرڈ منٹ کے بعد اپنی فراغت سے پریشان ہو جاتے ہیں ، لیکن میں اپنے بعض کاموں کے لیے اپنی سبکدوشی کا انتظارکر رہی ہوتی ہوں چونکہ جب آپ ملازمت کے دورانیہ میں ہوتے ہیں تو انتظامی معاملات تخلیقی کاموں سے روکتے ہیں ، ملازمت کے دوران ہم دوسروں کی مرضی اور ادارے کے اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں ، سبکدوشی کے بعد آپ اپنا کام اپنی مرضی اور اپنے مزاج کے مطابق کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ محترمہ لکھتی ہیں کہ سبکدوشی کے بعد میری مصروفیتوں کے محور قرطاس و قلم اور الایّام ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کے ماخذ پر مستند کام کرنے کا بھی پروگرام ہے ، اسلامی تاریخ کے بنیادی ماخذ زیادہ تر عربی زبان میں ہیں ،ان کا مستند اردو ترجمہ کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے ، بعض کتابوں کے تراجم میں بڑی غلطیاں اور تسامحات ہیں ، ان کی نشاندہی اور درستگی کرنے کی خواہش مند ہوں ، اس کے علاوہ تخلیقی کام یعنی شعر و ادب کا جو کام ہو جائے وہ غنیمت ہے میں آج بھی الحمدللہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرتی ہوں ۔ بقول شاعر
جی رہی ہوں اس اعتماد کے ساتھ
کہ زندگی کو میری ضرورت ہے
ہمیں اعتراف ہے کہ آج مطالعہ کتب ہم سے رخت سفر باندھ رہا ہے ۔کتب بینی کی عادتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں، پڑھنے پڑھانے کی روایتیں دم توڑ رہی ہیں، افادہ و استفادہ کا شوق چر مرا رہا ہے، بایں ہمہ سچے جوئیان علم اور شائقین کتب سے یہ دنیا خالی نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ انہیں کی وجہ سے ہم ایسے کم علموں اور بے بصروں کا بھرم بھی قائم ہے ، بہ ہرحال ’’مطالعہ نمبر‘‘ لگ بھگ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے جس کا جامع خلاصہ و نچوڑ اٹھتالیس صفحات پر مشتمل رسالہ بنام ’’مشک ورق‘‘ کاتب حروف نے مرتب کیا ہے۔ اختصار پسند حضرات اس سے بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔
آخری بات : حضرت مولانا عبدالغنی القاسمی صاحب کو اللّٰہ تعالیٰ نے گوناں گوں صفات سے نوازا ہے آں موصوف کی سرکاری ملازمت کا متعینہ عرصہ با وقار طور پر مکمل ہوا چاہتا ہے ذوق علم و شوق قلم کے جذبہ سے سرشاری میں چند سطریں مسطور ہوگئیں جو کہ میرا حق بھی تھا چونکہ راقم الحروف کا تعلق بھی اسی خانوادہ سے ہے۔ بطور خاص بچپن کے زمانہ میں ماموں جان کے گھر بار بار جانا رہتا تھا، اس کی بڑی وجہ ان کا آبائی گھر کی طرف بڑی کشش رہتی تھی منجملہ وجوہات کہ ایک وجہ عاجز کو بچپن سے ہی کتابوں سے وجدانی قسم کی وابستگی رہی ہے اور ان کے گھر میں کتابوں کا بڑا قیمتی ذخیرہ موجود تھا ۔لہٰذا ورق گردانی کے لیے گھر کی فضا بڑی خوشگوار تھی ۔نانا جان مولوی غلام حسین بھٹی مرحوم صوم و صلوة کے پابند اور علماء و صلحاء کے بڑے قدرداں تھے۔ جن لوگوں نے اس مرد درویش کو دیکھا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب بھی وہ کلام کرتے تھے علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری کے اشعار کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ زندگی کا بڑا حصہ نانا جان کا مادرعلمی جامعہ ضیاءالعلوم کی سفارت کاری میں گزرا اور جب بھی آپ کا مہتمم مدرسہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب کی خدمت میں جانا ہوتا تو حضرت والا پیار سے فرماتے کہ (پاپا) پہلے حفیظ جالندھری اور اقبال کا کچھ کلام ہو جائے اور پھر دوسری بات ہوگی۔ اور جب آپ کلام کرتے تو اہل مجلس سراپا گوش ہوجاتے وہ اکابر دیوبند میں مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں جلال آبادیؒ حکیم الامت قاری محمد طیب صاحبؒ کے تذکرے اس شان سے کیا کرتے جیسا کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے نتائج اخذ کرنے کے بڑے ماہر تھے، آپ کی تقوی داری مسلم تھی نانا جان بڑے خوش انجام رہے بوقت وفات مغرب کی نماز کے فرضوں کی پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ جب بھی اس بندہ خدا کو دیکھتے ہوں تو بے ساختہ زباں پر یہ شعر جاری ہو جاتا ہے کہ آہ!
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
آخری بات : ماموں جان حضرت مولانا عبدالغنی قاسمی کو قدرت نے گونا گوں صفات سے نوازا ہے۔ آپ کی حیات و خدمات کے داستاں مختصر ہو کر بھی بہت طویل ہے خدا کرے علم و عمل اور فکر و فن کی یہ کہکشاں تا حیات سدا بہار رہے۔ اب میں اس مقام پر پہنچا ہوں کہ جہاں یہ تذکرہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس خوبصورت شعر پر یہ راہروقلم رخصت ہوا چاہتا ہے کہ
تاریخ گلستاں جو مرتب ہوئی کبھی
دیباچہ بہار کا عنوان رہیں گے ہم